خصوصی رپورٹ۔۔۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے صحافیوں اور میڈیا کو درپیش مسائل کے حل کیلئے حکومت کو تین ماہ کا وقت دیا ہے کیونکہ شعبہ صحافت اور صحافیوں کو اس وقت اظہار رائے کے حق کے حوالے سے بدترین دباؤ کا سامنا ہے ۔ حکومت اگر پی ایف یو جے اور اسٹیک ہولڈرز کی شراکت سے ایک ایسا فریم ورک بنانے میں ناکام رہی جو میڈیا سے وابستہ کارکنوں اور صحافیوں کو جسمانی، معاشی اور ذہنی تحفظ فراہم کر سکے تو پھر پی ایف یو جے فیڈرل ایگزیکٹو کونسل (ایف ای سی) لاہور کے اجلاس میں متفقہ طور پر طے شدہ فیصلے کے مطابق اپریل کے پہلے ہفتہ میں کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ شروع کرے گی جو آخری مرحلے میں پارلیمنٹ کے سامنے دھرنے کی صورت اختیار کرے گا اور یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب حکومت پی ایف یو جے کے مطالبات تسلیم نہ کرے۔پی ایف یو جے کے نزدیک صحافیوں کے تحفظ اور حفاظت کے لئے کافی عرصے سے زیر التوا قانون سازی کو فوری حتمی شکل دینا ضروری ہے۔ تنظیم الیکٹرانک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر اظہار خیال پر قدغنیں لگانے والی دفعات پر بھی فوری نظرثانی چاہتی ہے ۔ تنظیم سمجھتی ہے کہ اختلاف رائے کے حوالے سے عدم برداشت کی پالیسی شائستگی کے اصولوں کے منافی ہے اورپاکستان کی ریاست اور جمہوریت کے مفاد پر پوری نہیں اترتی ۔ اس سے مسائل حل ہونے کی بجائے نہ صرف بڑھتے ہیں بلکہ مزید سنگین ہو جاتے ہیں ۔ اگر حکومت مقررہ وقت میں قانون سازی نہیں کرتی تو تنظیم مارچ 2021 میں ہونے والے اپنے قومی کنونشن میں صحافیوں کے تحفظ کے قانون اور ذرائع ابلاغ کیلئے ریگولیٹڑی فریم ورک میں ترامیم کے مسودات کو عوام کے سامنے رکھے گی ۔ پی ایف یو جے سمجھتی ہے کہ حکومت آزادی صحافت کے حوالے سے اپنے وعدے نبھانے میں مکمل ناکام رہی ہے اور “نامعلوم مجرموں” کے ہاتھوں صحافیوں کو دھمکانے اور جسمانی نقصان پہنچانے کے مسلسل واقعات پر بھی چپ سادھے ہوئے ہے ۔حکومت مجرموں کی گرفتاری اور سزا کی ایک مثال بھی پیش نہیں کر سکتی ۔ یہ تاثر عام ہے کہ حکومت بے بس یا شریک جرم ہے ۔ اس تاثر کو ان واقعات کی جاری تحقیقات میں تیزی لانے ، ملوث افراد کی نشاندہی کرنے اور انہیں انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت سزا کے عمل سے گزارنے سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے ۔ ایسا کرنے سے ہی وہ ما حول میسر ہوسکتا ہے جہاں صحافی عوام تک حقائق کو پہنچانے کے اپنے بنیادی جمہوری فرائض کو بلا خوف و خطر انجام دے سکیں ۔ تنظیم حکومت پر یہ بھی زور دیتی ہے کہ سرکاری تشہیری بجٹ کو صرف من پسند ابلاغی اداروں پر لٹانے کی بجائے تمام ٹیلی وژن ، ریڈیو چینلز اور اخبارات کیلئے انکی مصدقہ مقبولیت اور نشرواشاعت کے اعتبار سے منصفانہ طور پر مختص کیا جائے ۔ تنظیم تشہیری بجٹ کے استعمال سے متعلق حکومت کی پالیسی کو غیر واضح اور صحافیوں اور میڈیا انڈسٹری کے کارکنوں کی معاشی پریشانی کی ایک بڑی وجہ خیال کرتی ہے ۔ گزشتہ کچھ سالوں کے دوران میڈیا منیجمنٹ اور مالکان کی جانب سے آٹھ ہزار سے زیادہ صحافیوں اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ کارکنان کو ملازمتوں سے فارغ کردیا گیا ہے ۔ اداروں کا یہ عمل ملازمت کے حوالے سے ملکی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے اداروں نے صحافیوں اور کارکنوں کو بغیر معاہدہ کے ملازمت کی فراہمی کو معمول بنا رکھا ہے ۔ اس سے ان کو کارکنوں کو کسی بھی وقت فارغ کرنے اور من مانی کا بلا روک ٹوک موقع فراہم ہوتا ہے ۔ اس وقت ایسی صورتحال ہے کہ گویا میڈیا مالکان کو قانون سے استثنیٰ حاصل ہے ۔ مالکان اس استثنیٰ کا مکمل احساس رکھتے ہیں جو انکی مزید حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مالکان نہ صرف برطرف ملازمین کے جائز واجبات کی ادائیگی سے انکار کرتے ہیں بلکہ واجبات مانگنے پر دھمکانے اور آواز اٹھانے پر بدسلوکی سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ تنظیم بوقت ضرورت مالکان کے اس قبیح طرز عمل کی بہت ساری مثالیں پیش کر سکتی ہے ۔ پی ایف یو جے حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ رائج الوقت قوانین کے تحت ویج بورڈ ایوارڈ کے مکمل نفاذ کو یقینی بنانے کے لئے فوری اقدامات اٹھائے جائیں ۔ اسی طرح جو ادارے اپنے کارکنوں کو قانون کے مطابق معاوضے نہیں دے رہے انہیں جرمانے بھی کئے جائیں ۔ یقیناً ویج بورڈ پر عمل در آمد یقینی بنانا حکومت کی قانونی ذمہ داری ہے ۔ حکومت اگر اس کو نبھانے میں کسی بھی قسم کی غفلت کرتی ہے تو اسے حکومت کی نا اہلی سے تعبیر کیا جائے گا ۔ واضح رہے کہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے ) صحافیوں کی ملک گیر نمائندہ تنظیم ہے اور دو اگست 1950 میں اپنے قیام سے لیکر اب تک صحافیوں کے حقوق اورصحافتی آزادیوں کے تحفظ کیلئے تمام ترنامساعد حالات کے باوجودمسلسل کوشاں ہے۔( خصوصی رپورٹ)۔۔