alu timatar lelo sahafi lelo

میڈیا مالکان کے نمائندے صحافتی لیڈرز۔۔

تحریر: محمد نواز طاہر۔۔

حکومت نے فنکاروں کے ساتھ ساتھ میڈیا انڈسٹری کے کارکنوں کیلئے بھی ہیلتھ کارڈ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے جس کی تحسین کی جارہی ہے اور بلاشبہ حکومت کا یہ قابلِ تحسین اقدام ہے جو حکومت نے میڈیا انڈسٹری کے نمائندوں کی پرزور سفارشوں ، فرمائشوں اور مطالبات کے بعد کیا ہے ۔یہ اعلان کرکے بظاہر حکومت نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو صحت کارڈ پہلے سے موجود ہیں کیا وہ از خود غیر فعال ہوگئے ہیں یا سرے سے ہی ختم کردیے گئے اور اگر وہ ختم نہیں کیے گئے تو حکومت کے اس اعلان کے معنی کیا ہیں ؟ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب صحت کی سہولت ہر شہری کو فراہم کرنا ریاست( حکومت) کی اولین آئنی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے تو پھرمیڈیا کارکنوں کے نمائندے حکومت کے اس اعلان پر بغلیں کیوں بجا رہے ہیں ؟ جبکہ قانون کے تحت ہر اشاعتی و نشریاتی ادارے میں کام کرنے والے کارکن کو صحت کی سہولت فراہم کرنے کا متعلقہ ادارہ قانونی طور پر پابند ہے تو پھر کیا کارکنوں کے نمائندے اس قانونی حق سے دستبردار ہوگئے ہیں ؟ حالانکہ تنظیموں میں خلفشار ، عدمِ اعتماد، ٹوٹ پھوٹ اور مش روم گروپوں میں تقسیم سے پہلے منتخب نمائندے حکومت سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ انہیں اخباری کارکنوں کی شرائط ملازمت کے قانون کے( نیوز پیپرزی ایمپلائیز ( کنڈیشنس آف سروس ) ایکٹ کے تحت جملہ قانونی مراعات دی جائیں اور یہ حق دلانے کیلئے حکومتِ وقت قانون اور ریاست کی رٹ قائم کرے مگر اب لگتا ہے کہ کارکنوں کی نمائندگی کے دعویدار کارکنوں کی نہیں بلکہ مالکان کی نمائندگی کررہے ہیں اور اپنے قانونی مطالبات سے دستبردار ہوچکے ہیں ورنہ حکومت سے ہیلتھ کارڈ کا مطالبہ کرنے،یہ سہولت حاصل کرنے اوراس پر فخر کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ آئین کے تحت یہ حکومت اب رخصتی کے مراحل میں ہے اور اخباری کارکنوں کے نویں ویج بورڈ کی تشکیل کا وقت ہوچکا ہے اور حکومت نئے بورڈ کے چیئرمین کے تقرر و بورڈ اراکین کی نامزدگی کی جانب کوئی پیش رفت نہیں کر رہی جبکہ بظاہر اخباری کارکنوں کی نمائندہ تنظیمیں حکومت سے اس مطالبے سے بھی دستبراد دکھائی دیتی ہیں ۔

 لاہور پریس کلب میں وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات محترمہ مریم اورنگزیب بڑے فخرکے ساتھ میڈیا کارکنوں کیلئے خصوصی اقدام کا ذکر کرتے ہوئے میرے( بحیثیت اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل آل پاکستان نیوز پیپرز ایمپلائیز کنفیڈرئیشن ( ایپنک) ایک سوال کے جواب میں یہ بھی فرما رہی تھیں کہ ویج ایوارڈعملدرآمد ٹربیونل ( آئی ٹی این ای) کے ذریعے کارکنوں کو کروڑوں روپے کے واجبات حکومت نے دلائے ہیں اور جب ان کی توجہ اس جانب مبذول کروائی گئی کہ آئی ٹی این ای عدالتی کارروائی سے کارکنوں کے سلب کیے ہوئے حقوق دلانے کا ادارہ ہے اس میں حکومت کا کردار اور ’مہربانی ‘ کہاں سے آگئی؟ تو وزیراطلاعات نے اپنے موقف پر قائم رہنے کی کوشش کی، وہ پریس کلب کی مہمان تھیں اور اخلاقیات کا اولین تقاضا مہمان کا احترام ہے ، اسی تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی ضد اور غلط موقف پر ڈٹے رہنے کے بجائے ان سے مزید کوئی بات نہیں کی گئی کیونکہ جب کوئی انسان ’میں نہ مانوں ‘ پر اڑ جائے تو اس پر تلوار کا وار نہیں کیا جاتا ، اس کا موقف جمہوری اور اخلاقی طریقِ کار کے مطابق عوام کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے جو خود ہی درست فیصلہ کرلیتے ہیں ، اس غلط موقف کو بھی اب عوام کے سامنے رکھ دیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی باور کروایا جارہا ہے کہ سنہ دو ہزار اٹھارہ میں ختم ہونے والی مسلم لیگ ن کی حکومت نے آئی ٹی این کے چیئرمین کا طویل عرصہ تقرر نہیں کیا تھا بلکہ یہ تقرری اس وقت عمل میں آئی تھی جب ملک بھر کے کارکن اس حکومت کیخلاف اپنے جائز مطالبے کے حق میں لانگ مسارچ کرتے ہوئے مختلف شہروں سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی طرف روانہ ہوچکے تھے اور کچھ قافلے نیشنل پریس کلب میں پہنچ بھی چکے تھے ، ایسے حالات میں آئی ٹی این کے چیئرمین کا تقرر کیا حکومت کا اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اٹھایا جانے والا اقدام تھا یا کارکنوں کی جدوجہد کے سامنے بے بسی میں اٹھایا جانے والا اقدام قراردیا جانا چاہئے ؟

 اس وقت بھی جبکہ حکومت کے جانے کا وقت ہوا چاہتا ہے تو حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ نویں ویج بورڈ کا بلا تاخیراعلان کرے تاکہ وہ بورڈ عبوری ریلیف کا اعلان کرکے نئے ایوارڈ کے تعین کی کارروائی کا آغاز کرے ۔

 میں زاتی حیثیت میں یہ سمجھتا ہیوں اور تنظیمی امور پر بحث کے وقت اپنی تنظیم کے سامنے بھی یہ معاملہ رکھوں گا کہ حکومت کے اعلان پر بغلیں بجانے ، اس معاملے میں کسی کی تحسین ، وزراءاور سرکاری افسروں کے ساتھ تصاویر بنوانے کے بجائے اپنے قانونی حقوق کے حصول کیلئے جدو جہد تیز کریں ۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا اندسٹری کے کارکنان بھی چکنی چُپڑی باتوں پر دھیان دینے کے بجائے اپنے جائز قانونی حقوق کیلئے شانہ بشانہ چلیں اور ہمارے جو ساتھی حکومت سے اپنے جائز حقوق اور مطالبے پرواپس نہیں آتے ان کا قبلہ بھی پیاسر محبت اورپورے احترام کے ساتھ درست کریں، کسی کو مالکان کا ٹاﺅٹ یا ھکومت یا کسی جماعت کا ٹاﺅٹ کہنے جیسےالفاظ کے استعمال سے اجتناب کریں ، یہ الفاط سے اتحاد و اتفاق برقرا ر نہیں رہ پاتا ۔ (محمد نواز طاہر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں