azadi sahaafat ka aalmi din

میڈیا مالکان کے فارنزک آڈٹ کا مطالبہ۔۔

کراچی یونین آف جرنلسٹس نے مختلف میڈیا ہاوسز میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور تاخیر سے ادائیگی سمیت ایک نئے آنے والے نیوز چینل میں ممکنہ برطرفیوں کی اطلاعات اور ایک نیوز چینل کی فروخت کے بعد نئی انتظامیہ کی جانب سے ملازمین سے روا رکھے جانے والے رویے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور میڈیا مالکان کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنی روش بدلیں بصورت دیگر کراچی یونین آف جرنلسٹس ناصرف ان میڈیا ہاوسز بلکہ ان کے مالکان کے گھروں کا بھی گھیراو کرے گی کراچی یونین آف جرنلسٹس نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس فائز عیسی سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ ماہانہ کروڑوں روپے کمانے والے میڈیا مالکان کے فارنزک آڈٹ کا حکم دیں اور ساتھ ہی اس بات کا بھی نوٹس لیں کہ میڈیا مالکان کس طرح اپنے میڈیا ہاوسز میں لیبر لاز کی سنگین خلاف ورزیاں کررہے ہیں کراچی یونین آف جرنلسٹس کی مجلس عاملہ کا ایک اجلاس صدر فہیم صدیقی کی صدارت میں کراچی پریس کلب میں ہوا جس میں جنرل سیکریٹری لیاقت علی رانا نے میڈیا ہاوسز کی مجموعی صورتحال پر اجلاس کو بریفنگ دی اجلاس میں مختلف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہاوسز میں تںخواہوں کی عدم ادائیگی اور تاخیر سے ادائیگی کے معاملات زیر بحث آئے جبکہ نگراں وزیراعظم کے میڈیا ہاوسز سے متعلق بیان اور اس پر اے پی این ایس کے ردعمل پر بھی غور کیا گیا اجلاس میں لاہور سے ایک نئے نیوز چینل میں ممکنہ جبری برطرفیوں کی اطلاعات اور بول نیوز کی نئی انتظامیہ کی جانب سے ملازمین سے روا رکھے جانے والے رویے پر تشویش کا اظہار کیا گیا اجلاس میں کہا گیا کہ میڈیا انڈسٹری میں نئے آنے والے غیرپیشہ ور مالکان اس انڈسٹری کو مزید تباہی کی طرف لے جارہے ہیں وہ اپنے دیگر کاروبار کو شیلٹر دینے کے لیے اس انڈسٹری میں آتے ہیں اور بلند بانگ دعوے کرنے کے بعد چند روز میں ہی بجٹ کا رونا رونا شروع کردیتے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان اور خاص طور پر پیمرا کو اس کا نوٹس لینا چاہیے کراچی یونین آف جرنلسٹس کے اجلاس میں آئی ٹی این ای کے چیئرمین کے رویے پر بھی غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور نگراں وزیراعظم سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ روزنامہ ڈان کے مقدمات کئی ماہ سے سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے اور مالکان کی طرف واضح جھکاو کا نوٹس لیتے ہوئے چیئرمین آئی ٹی این ای کے خلاف کارروائی کریں اجلاس میں نگراں وزیراعظم کے میڈیا ہاوسز خاص طور پر اخبارات کے بزنس ماڈل سے متعلق بیان اور اس پر اے پی این ایس کے ردعمل پر بھی غور کیا گیا اور حکومت اور اے پی این ایس دونوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس معاملے کا مل بیٹھ کر حل نکالیں اجلاس میں کہا گیا کہ وزیراعظم کے بیان کا یہ حصہ درست ہے کہ اخبارات صرف سرکاری اشتہارات کے دم پر نہیں چلتے لیکن اس کے باوجود حکومت کی جانب سے سرکاری اشتہارات کی مد میں اخبارات کے 2 ارب روپے کے واجبات ادا نہ کرنا بھی ایک زیادتی ہے کراچی یونین آف جرنلسٹس نے اے پی این ایس سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ بھی اس بات کو تسلیم کریں کہ ان کی اصل آمدنی پرائیویٹ اشتہارات سے ہے اور اخبارات کے پاس پرائیویٹ اشتہارات کی کوئی کمی نہیں ہے جبکہ ماضی کی حکومتوں پر سرکاری اشتہارات کی مد میں واجب الادا اربوں روپے پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت میں اخباری مالکان کو ادا کیے گئے ہیں اس صورتحال میں اخبارات میں ملازمین کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی یا تاخیر سے ادائیگی غیرمنصفانہ عمل ہے۔ کے یو جے نے نگراں وزیراعظم سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ جہاں انہوں نے اتنی ہمت کرتے ہوئے میڈیا مالکان کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے وہیں وہ میڈیا مالکان سے اس بات پر بھی عمل کرائیں کہ وہ اپنے ملازمین کو ناصرف وقت پر تںخواہ ادا کریں بلکہ رکی ہوئی تںخواہیں بھی یکمشت ادا کریں اور اگر کوئی میڈیا ہاوس ایسا نہیں کرتا تو اس کا ڈیکلیریشن فوری طور پر ختم کردیا جائے۔ اجلاس میں کے یو جے کے ارکان کو کارڈز کے اجرا کے معاملے کا بھی جائزہ لیا گیا اور طے پایا کہ ارکان کو کارڈز کے اجرا کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں