تحریر: جمال عبداللہ عثمان۔۔
ڈیلی پاکستان پر لاہور کے ایک کیمرہ مین کی بپتا سنی۔ کئی بڑے چینلز کے ساتھ وابستہ رہا لیکن آزمائشوں کے بعد بالآخر نوکری چھوڑ کر انڈا ٹکی بیچنا شروع کردی۔ لاکھوں روپے بقایا جات اب بھی چینل کی طرف ہیں۔
ایک وقت تھا جب میڈیا کی چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کر دیتی تھی۔ بہت سے والدین کی خواہش ہوتی کہ میرا بیٹا اور بیٹی میڈیا سے وابستہ ہو۔۔۔ اور یہی ہوا بہت بڑی تعداد یہاں آئی۔ لیکن پھر ظاہری چمک دمک کے حامل میڈیا کے یہ محلات ڈھے گئے۔ جو کمی بیشی رہ گئی تھی وہ اللہ کے فضل وکرم سے “نئے پاکستان” نے پوری کردی۔
اس وقت پاکستان کے ایک دو کے علاوہ اکثر چینل میں حال یہ ہے کہ تین سے لے کر اٹھ آٹھ ماہ تک کی تنخواہیں ورکرز کو نہیں مل سکیں۔ کئی چینلز نے تنخواہوں میں دو ڈھائی سال کے اندر پچاس سے ساٹھ فیصد تک کٹوتی کردی ہے۔۔۔ یعنی جس کی تنخواہ دو ہزار اٹھارہ میں پچاس ہزار تھی، دو سال کا عرصہ گزرنے کے بعد وہ پچیس ہزار لے رہا ہے۔ اندازہ لگائیں جہاں دو سالوں میں کم ازکم بھی بیس فیصد اضافہ ہونا تھا، وہاں اتنا بڑا کٹ لگ گیا۔ اور اس ظلم میں اکثر شامل رہے۔ یہاں تک ہوا کہ ایک بڑے چینل کے مالک بنفس نفیس دیگر چینل مالکان کے پاس جاجاکر دھمکیاں دیتے رہے کہ تنخواہوں میں کٹوتی کرو اور زیادہ تنخواہیں لگاکر انڈسٹری کو خراب نہ کیا جائے۔
چینل مالکان اپنا رونا روتے ہیں۔ ممکن ہے بہت حد تک درست بھی ہو۔ نئے پاکستان نے جو کباڑا ہر شعبے کا کیا ہے، اس میں میڈیا کیسے محفوظ رہ سکتا ہے لیکن اس کے باوجود اس سے مالکان کو مکمل بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر یہ بات مان لی جائے کہ نئے پاکستان میں انہیں سرکاری اشتہار نہیں مل رہے یا پھر حکومت نے ان کا گلا گھونٹ رکھا ہے تو پھر یہ دکانیں بند کرکے گھر کیوں نہیں بیٹھ جاتے؟ ایسی بھی کیا مجبوریاں ہیں کہ اپنی راتوں کی نیندیں حرام کررکھی ہیں۔
یہ بھی عرض کروں کہ دو ڈھائی سال کے کرائسس کے باوجود چینل مالکان کے شوق ویسے کے ویسے ہی رہے۔ ان کے اللے تللوں میں، ان کے لائف اسٹائل میں کوئی فرق نہیں آسکا۔ ایسے چینلز جہاں کیمرہ مین اور ادنی اسٹاف کے لیے دس اور بیس ہزار روپے نہیں ہوتے، وہاں تیس اور چالیس لاکھ روپے میں اس بدترین بحران کے دوران بھی اینکر پرسنز لائے جاتے رہے۔
میڈیا مالکان یہ جرم کررہے ہیں لیکن اس سے بڑا جرم حکومت بھی کررہی ہے۔ وزیراعظم تک کو معلوم ہے کہ اس وقت میڈیا میں عام ورکر کا کیا حال ہے، کس بدترین طریقے سے استحصال ہورہا ہے، مگر اس میں اتنی جرات نہیں کہ حقیقی معنوں میں ان کے لیے کوئی ریلیف دے سکے یا چینل مالکان کو ان کی ذمہ داری یاد دلاسکے۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنے خلاف خبروں اور رپورٹنگ پر وہ پورے پورے چینل بند کرواتی ہے اور سینیئر صحافی گھروں کو بھجوادیتی ہے۔
لاہور کا یہ کیمرہ مین کوئی پہلا اور آخری کیس نہیں ہے۔ ذاتی طور پر ایسے کئی دوستوں کو جانتا ہوں جن کے گھروں میں فاقوں تک نوبت پہنچ چکی ہے لیکن ان کے پاس کوئی آپشن باقی نہیں بچا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ میڈیا سے وابستگی کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ اس پاس جاننے والے سب ہی میڈیا ورکر کو ملک وملت کی سب سے زیادہ اثرورسوخ والی شخصیت سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنا یہ بھرم بھی کھونا نہیں چاہتا۔ اور ایسا کر بھی لے تو یہاں تعاون کرنے والوں کے بجائے تماشا دیکھنے والے زیادہ مل جاتے ہیں۔(جمال عبداللہ عثمان)۔۔
(جمال عبداللہ عثمان سینئر صحافی اور اسلام آباد میں نیونیوزسے منسلک ہیں، یہ تحریر ان کی ٹائم لائن سے لی گئی ہے جس سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔