تحریر: ڈاکٹر صفدر محمود
دوستو! ایک ہوتی ہے حکمت دوسری ہوتی ہے عقلمندی۔ بظاہر دونوں الفاظ کے معانی ایک جیسے لگتے ہیں لیکن ان میں باریک سا فرق ہے جو مثالوں سے واضح ہوگا۔حکمت میں بصیرت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے جبکہ عقلمندی میں بصیرت سے زیادہ دنیاداری کا عکس ہوتا ہے۔
حکمت یہ ہے کہ حالات کا جائزہ لے کر وہ دھیما اور درمیانی راستہ اختیار کیا جائے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔محاورے کی حد تک تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اگر آپ عملی انداز اور عقلمندی سے اس بارے رائے کا اظہار کریں تو کہیں گے کہ اگر سانپ لاٹھی سے نہیں مارنا تو کیا ہاتھ سے مارنا ہے۔ہاتھ سے ماریں گے تو سانپ کے ڈنگ کا شکار ہو کر خود ہی وفات پاجائیں گے۔ عقلمند اگر سچا ہو تو ببانگِ دہل سچ بولتا ہے اور نتائج کی پروا نہیں کرتا، جب حکمت کا امین سچ بولتا ہے لیکن اس بصیرت آموز انداز میں کہ بات دل کو بھی چھو جائے لیکن دل کے ٹکڑے ٹکڑے بھی نہ کرے۔
بچپن میں ہم نے وہ کہانی کتاب میں پڑھی تھی کہ ایک بادشاہ کو اس کے حواریوں، درباریوں نے یقین دلایا کہ وہ نہایت خوبصورت اعلیٰ درجے کا لباس زیب تن کئے ہوئے ہے حالانکہ وہ ننگا تھا۔ وہ اسی حالت میں رعایا کو دیدار کرانے نکلا تو لوگ بادشاہ کو اس حالت میں دیکھ کر حیران اور پریشان ہوگئے لیکن ڈر کے مارے خاموش رہے۔
بادشاہ کی سواری شاہانہ انداز سے گزر رہی تھی کہ اچانک ایک طرف سے آواز آئی ’’بادشاہ ننگا ہے‘‘، یہ معصوم بچہ سچا انسان تھا لیکن صاحبِ بصیرت نہیں تھا، اگر آپ اردگرد نگاہ ڈالیں، اخباری کالمز پڑھیں، تجزیہ کاروں اور ٹی وی پر دانشوروں کی گفتگو سنیں تو آپ کو دونوں قسم کے نمونے ملیں گے۔ بادشاہ کو ننگا کہنے والے بھی موجود ہیں اور بےلباس بادشاہ کو اعلیٰ درجے کے لباس میں ملبوس قرار دینے والے بھی بہت ہیں۔
یہی حال سیاستدانوں کا بھی ہے، ان میں بھی بڑے بڑے عقلمند اور بڑے صاحبانِ بصیرت موجود ہیں۔ صاحبانِ بصیرت وہ سیاستدان ہیں جنہوں نے خوب کھایا، نسل در نسل حکمرانی کی اور ذاتی خزانے بھرے، دنیا بھر میں کاروباری ادارے قائم کئے اور جائیدادیں بنائیں لیکن اپنی حکمت اور بصیرت کا استعمال کرکے نہ صرف نیب سے محفوظ رہے بلکہ اقتدار کے کیک کا ٹکڑا بھی لے اڑے۔ حکمت کے سبب حکومت کے بھی ستون بنے رہے اور حزبِ مخالف سے بھی تعلقات کے تقاضے نبھاتے رہے۔اِدھر حکمرانوں کو ’’طولانی اقتدار‘‘ کے نسخے بتاتے رہے، اُدھر حزبِ مخالف کو حکومت گرانے کے حکیمانہ نسخے عطا فرماتے رہے۔ حکومت خوفزدہ ہوگی تو ان کے تھلے لگے گی اور وہ اپنی مرادیں پانے میں کامیاب ہوں گے۔
فوجی آمر ہو یا جمہوری حکمران وہ سب کی ضرورت ہیں اور اس کی لاٹھی بن جاتے ہیں۔ دنیا والوں کا کیا ہے؟ دنیا اقتدار، اثر و رسوخ اور دولت کی یار ہوتی ہے کردار، ایمانداری اور دیانت کی نہیں کیونکہ دنیا والوں کو کام کروانا ہوتے ہیں، ذاتی مفادات بھی حاصل کرنا ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مطلب پرستی کا یہ کھیل کسی دیانتدار اور بااصول حکمران سے نہیں کھیلا جا سکتا۔دنیا کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ کون ملک و قوم سے مخلص ہے، انہیں اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں، چنانچہ وہ ایسے عقلمند سیاستدانوں کے اردگرد جھولیاں پھیلائے کھڑے رہتے ہیں جہاں سے وہ جھولی بھر سکیں۔ یہی حال ہمارے میڈیا حضرات کا بھی ہے کہ وہ سب کچھ جاننے کے باوجود اور ان کی کرپشن کی کہانیاں حفظ ہونے کے باوجود ان کے دستر خوانوں سے فیض یاب ہوتے رہتے ہیں اور موقع پیدا کرکے پلاٹ، کار، کاروباری مراعات، نقدی یا پٹرول پمپ حاصل کرکے زندگی کو آسودہ بنا لیتے ہیں اور کڑوروں میں کھیلتے ہیں۔
گھاٹے میں وہ رہتے ہیں جنہیں بادشاہ کو ننگا کہنے کی عادت ہوتی ہے۔ یہ عقلمند مگر سچے ہر حکمران اور سیاستدان کے ناپسندیدہ ٹھہرتے ہیں لیکن اس بات پہ خوش رہتے ہیں کہ ہم سچ بول رہے ہیں۔سچ کا اجر اگلے جہان میں یقیناً وافر مقدار میں ملے گا لیکن اس جہان میں سچ بولنا سراسر گھاٹے کا کام ہوتا ہے۔ میڈیا میں بھی وہ حضرات کامیاب و کامران ٹھہرے جنہوں نے عملیت پسندی کے ساتھ ساتھ حکمت سے کام لیا۔ سارے سیاسی گھرانوں سے تعلقات استوار کر لئے اور حکمت سے اپنا مقام بھی بنائے رکھا۔ سب سے فائدے اٹھائے اور کبھی بھی زیر عتاب نہ آئے۔وہ صحیح معنوں میں حکمت کے ماڈل ہیں حکمت سے حق گوئی کا بھرم بھی قائم رکھتے ہیں اور بادشاہ کو ننگا بھی نہیں کہتے۔ اس کے برعکس وہ حضرات جو خود کو کسی ایک حکمران، لیڈر یا سیاسی جاگیردار سے وابستہ کرکے اس کی جاگیر کا حصہ بن جاتے ہیں وہ نقصان اٹھاتے ہیں۔اول تو دوسروں کو ناراض کرتے ہیں، دشمن بناتے ہیں، دوم انہیں اپنے آقا کے برسراقتدار آنے کے لئے کبھی کبھی خاصا انتظار کرنا پڑتا ہے اور اس دوران رگڑا کھانا پڑتا ہے۔
مختصر یہ کہ ہر طرح گھاٹے میں وہ دانشور یا لکھاری رہتا ہے جو ہر بادشاہ کو اس کی بےلباسی کی طرف متوجہ کرتا ہے یا حق گوئی کے بخار میں مبتلا ہو کر اسے ننگا کہتا ہے۔ میرے نزدیک یہ لوگ یقیناً عقلمند ہیں لیکن حکمت سے تہی دامن ہیں۔ ہاتھ سے سانپ مارتے اور اپنی جرأت و بیباکی کے نشے میں مست رہتے ہیں۔ یقین رکھیں میری حکمت سے ہرگز مراد منافقت نہیں۔(بشکریہ جنگ)