تحریر: خلیل احمد نینی تال والا۔۔
زمبابوے اور پاکستان کی کرکٹ ٹیموں کے نامزد کھلاڑیوں اور اہلکاروں کے کووڈ19(کورونا) ٹیسٹ منفی آ گئے تو کھلاڑیوں نے پریکٹس کا آغاز کر دیا۔ زمبابوے کی ٹیم یہاں تین ایک روزہ اور ٹی20 میچوں کی سیریز کھیلے گی اور یوں پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ پھر سے ہو گی۔ اس کے بعد انگلینڈ ٹیم کی آمد بھی متوقع ہے، جبکہ نومبر میں پاکستان کرکٹ ٹیم نیوزی لینڈ کا دورہ کرے گی، وہاں ایک روزہ اور ٹی20 میچوں کے علاوہ دو ٹیسٹ بھی کھیلے جائیں گے۔ کورونا کی وجہ سے یہاں میچ تماشائیوں کے بغیر ہوں گے اور یہ سلسلہ کورونا وبا کے خاتمے تک جاری رہے گا، لیکن نیوزی لینڈ حکومت نے نومبر میں شروع ہونے والے مقابلوں کے دوران شائقین کو اجازت دے دی ہے، حکومت مطمئن ہےکہ وبا پر قابو پا لیا گیا۔پاکستان کرکٹ بورڈ کی کاوشوں کی تعریف ہی کرنا چاہئے کہ سری لنکا ٹیم کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کے بعد کئی سال کسی عالمی ٹیم کے نہ آنے کے بعد سری لنکا، ویسٹ انڈیز کو بلایا اور اب زمبابوے بھی آ گئی ہے، تاہم ماہرین کرکٹ کے مطابق اس کوشش سے ماورا بورڈ میں ٹیم کے حوالے سے سب اچھا نہیں، مصباح الحق نےچیف سلیکٹر اور چیف کوچ کے عہدے سنبھالے ہوئے تھے،ان کو چیف سلیکٹر کا عہدہ چھوڑنا پڑا، ابھی تک سلیکشن ٹیم کا نیا سربراہ مقرر نہیں ہوا۔ بورڈ نے اس سیریز کے بعد نیوزی لینڈ جانا ہے اور ٹیم پھر سے چنی جائے گی۔ اب کہا جا رہا ہے کہ اظہر علی کو ٹیسٹ ٹیم کی سربراہی سے ہٹا دیا جائے گا کہ دورہ برطانیہ میں ان کی قیادت نتائج نہ دے سکی۔ یہ فیصلہ بھی تنقید کا باعث بنا،جب اظہر علی کو ٹیسٹ ٹیم کا کپتان بنایا گیا تو ماہرین ہی نے اعتراض کیا تھاکہ بورڈ میں میرٹ کا اعلان کر کے عمل نہیں کیا جاتا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو اپنے معاملات صاف رکھنا چاہئیں کہ کرکٹ بین الاقوامی سطح پر کھیلی جاتی اور اس کے اچھے،برے سے ملک کی عزت وابستہ ہوتی ہے۔جہاں تک آئندہ ٹیسٹ کپتان کا تعلق ہے تو اس کے لئے بابر اعظم اور رضوان کا نام لیا جا رہا ہے۔بابر اعظم کو یہ ذمہ داری دینی ہے تو اس کی تربیت بھی کرنا ہو گی کہ یہ سب بوجھ نہ ہو کہ اس کی بیٹنگ متاثر ہو جائے۔ جب سے PTIحکومت آئی ہے کھیلوں کے نظام میں بھی تبدیلی آچکی ہے ۔ اس وقت کرکٹ کے کرتا دھرتا کا تعلق بھی عمران خان کے ذاتی دوستوں میں بتایا جاتا ہے ۔ جن کو ڈھونڈ کر PCBکا سربراہ بنا دیا گیا ہے ۔ انہوں نے کرکٹ کا ڈھانچہ تبدیل کر کے کھلاڑیوں میں بے چینی اور بے روزگاری پیدا کر دی ہے۔ پہلے درجنوں ڈیپارٹمنٹس میں کرکٹ ہوتی تھی ، سرکاری نیم سرکاری اور تجارتی اداروں میں پورے ملک سے لڑکے کرکٹ کھیلتے تھے ۔ سارا سال ان کو معقول تنخواہیں ملتی تھیں اور صوبائی مرکزی سطح پر الگ کرکٹ کا نظام تھا ۔ اب ڈیپارٹمنٹل سطح پر کرکٹ کو ختم کر کے صرف صوبائی سطح پر نیا ڈھانچہ متعارف کر ایا گیا جو کرکٹ کو ختم کرنے کی کاوش دکھائی دیتا ہے اور مزید تباہ کرنے کے لئے تنخواہیں اور مراعات اتنی کم رکھی ہیں کہ شاید ہی کوئی اس پر گزارہ کر سکے۔ کھلاڑیوں میںبہت بے چینی پیدا ہو چکی ہے ہر صوبے کا بجٹ الگ ہو تا ہے پھر صوبوں کی آمدنی کے لحاظ سے اور آبادی کی شرح مختلف ہوتی ہے ۔ چھوٹے بڑے صوبے کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ ماضی کی طرح پنجاب کی نسبت یہاں بھی سندھ کے کھلاڑیوں کو مسلسل نظر انداز کرنے کاسلسلہ جاری ہے ۔ کپتان سرفراز کو ہٹا کر پھر نئے سلیکٹرز صاحبان نے 5نئے کھلاڑیوں سے تجربہ کیا تھا اور وہی ہواکہ پہلے T-20میں2میچ ہار گئے اور ایک میچ اللہ کی مہربانی سے بارش نے بچا لیاتھا۔ آسٹریلیا جیسے ملک سے جہاں ہم آج تک کوئی ٹیسٹ نہیں جیت سکے ۔ 9کے 9ٹیسٹ ہار کر اور2 میچ ڈرا کر کے پھر قوم کا سر جھکا دیا ۔اب بھی یہی ہوا کہ کراچی کے کھلاڑیوں کے ساتھ مسلسل نا انصافی جاری ہے ۔حا لیہ پاکستان زمبابوے سیریز میں کراچی کے تمام کھلاڑیوں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔جن میںخرم منظور ،سہیل خان ،سرفراز احمد،تابش نوازاور فواد عالم شامل ہیں،انہوں نے موجودہ قومی T-20چیمپئن شپ میں رنز کے امبار لگا دئیے ،مگر ان کو سلیکٹ نہیں کیا گیا ۔دوسری ناانصافی کراچی کے ساتھ یہ کی گئی کہ سارے میچز لاہوراور راولپنڈی میں شیڈول کئے گئے ہیں۔حالانکہ وہاں اسموگ کا بھی خطرہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں کرکٹ ٹیلنٹ بہت ہے، یہاں اگر اس کھیل کے ڈھانچے کو درست کر کے میرٹ کا نظام نافذ ہو جائے تو پاکستان کرکٹ دُنیا میں راج کر سکتی ہے۔انہوں نے مثال دی کہ آسٹریلیا میں نہ صرف کرکٹ کا ڈھانچہ درست اور مضبوط ہے، بلکہ میرٹ پر بھی عمل کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا نے کرکٹ میں دُنیا پر راج کیا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے آسٹریلوی طرز کے نظام کی بات کی اور ان کے ایماپر ریجنل کرکٹ کو فروغ دیا جا رہا ہے، جبکہ ادارہ جاتی کرکٹ ٹیمیں ختم کر دی گئی ہیں۔ یہ نظام مرحوم عبدالحفیظ کاردار نے کھلاڑیوں کو روزگار اور مزید پریکٹس کے لئے متعارف کرایا تھا،اس کی وجہ سے کھلاڑی برسر روزگار ہوتے تھے ،تو توجہ کھیل پر مرکوز کرتے تھے۔جب کہ اب یہ مشکل ہو گیا ہے۔اب احسان مانی کہتے ہیں ،سرفراز کو ہٹانے کا فیصلہ میرا تھانہ کہ مصباح الحق کا تھا۔نتیجہ سب کے سامنے آگیا ہم کوئی بھی ٹیسٹ نہ جیت سکے اور ہماری ضد ابھی تک باقی ہے کیا یہ تجربہ جاری رکھ کر قوم کا زمبابوے کی ٹیم کے سامنے بھی سر جھکانے کا پروگرام ہے۔تمام کراچی کے تجربہ کار کھلاڑی ،لکھاری اور میڈیا کیوں خاموش ہیں۔(بشکریہ جنگ)۔۔