media ko tabah na karen

میڈیا کو تباہ نہ کریں۔۔

تحریر: ناصر جمال۔۔

سوشل میڈیا پہ نوری الھدی شاہ سے منسوب چند لائنیں وائرل ہیں کہ۔۔سیاست ھیرا منڈی کی تنگ گلیوں سے گزرتی تھی۔ یہ تو معلوم تھا۔ مگر سیاست اپنا کوٹھا کھول کر بیٹھ جائے گی۔ یہ کبھی  سوچا نہیں تھا۔۔قطع نظر اس سے کہ یہ لائنز کس نے لکھی ہیں۔ مگر اس میں چھپی سچائی اور کاٹ سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جسے کبھی سلیم کوثر نے اپنی کتاب کے دیباچے پر کمال لائن لکھی تھی کہ۔۔میں حسینؓ کی موجودگی میں یزید سے کیسے محبت کرسکتا ہوں۔۔۔۔؟

آج آپ جس سمت دیکھیں اہل دانش پریشان اور غصے میں ہیں۔یہ بے سبب تو نہیں ہے۔جیسے جیسے گھٹن بڑھ رہی ہے ویسے ویسے الفاظ بھی تلواروں  کی طرح تیز دھار  ھوتے جا رہے ہیں۔

ملک میں، ہر روز سانحے ہورہے ہیں۔ بلوچستان کے بلوچ ایریاز اور  کے۔ پی میں قبائلی علاقے بطور خاص ڈسٹرب ہیں۔

اس میں کوئی رائے نہیں ہیں کہ ازلی دشمن اور اُس کے حواری ہر کاری ضرب کے پیچھے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام، بیڈ اور کمزور گورننس، ناعاقبت اندیش قیادت، نظام پرعوام کے عدم اعتماد نے ، صورتحال کو اور گھمبیر بنا دیا ہے۔ ہمارے جوانوں کی شہادتیں اور قربانیاں دھندلا رہی ہیں۔

جعفر ایکسپریس دنیا کے لئے انوکھا واقعہ تھا۔ وزیراعظم، وزیر داخلہ، وزیر اطلاعات، وزیر ریلوے اور آئی۔ ایس۔ پی۔ آر نے اسے ، مکمل طورپر مس ہینڈل کیا ہے۔

ڈسٹرب بلوچستان میں بغیر ہتھیاروں کے آپ دو سو سے زائد فوجی جوانوں اور افسروں کو کیسے ٹرین میں سفر کرواسکتے ہیں۔ سوات، شمالی و جنوبی وزیرستان، والی ’’ایس۔ او۔ پی‘‘ کیوں نہیں اپنائی گئیں۔وہاں سے جب سکیورٹی اہلکار واپس اتے تھے تو اپنے اسلحہ کے ساتھ آتے تھے۔اپ اتنی بڑی غفلت کیسے کر سکتے ہیں۔ اگر دوسو سیکیورٹی اہلکار اسلحہ کے ساتھ ہوتے تو منظر نامہ  کچھ اور ہی ہوتا۔

جب واقعہ کا پتا چل گیا تھا تو آئی۔ ایس۔ پی۔ آر نے لیڈ کیوں نہیں لی۔ آج کل، تو اُن کے ابرو کے اشارے کے بغیر میڈیا مالکان اور اینکر واش روم بھی نہیں جاتے۔پھر انہوں نے خاموشی کی چادر کیسے اوڑھ لی۔اور پوری قوم کو بے خبری اور حجان میں مبتلا رکھا۔

انڈین اسٹرائیک والے واقعہ کی طرح، آئی۔ ایس۔ پی۔ آر کو لیڈ لیتے ہوئے، محتاط اور مختصر ترین ابتدائی ٹویٹ  ضرورکرنا چاہئے تھا۔آئی ایس پی آر ڈکٹیٹ کرنے کی پوزیشن پر چلا جاتا۔

کیا وجہ ہے کہ ہر کسی کو سوشل میڈیا سے ہی واقعات کا کیوں پتا چلتا ہے۔اور عوام صرف سوشل میڈیا پر ہی کیوں اعتبار کرتے ہیں۔

آئی۔ ایس۔ پی۔ آر کبھی بھی اتنا نکما اور نالائق تو نہیں ہوتا تھا۔ لگتا ہے۔ وہاں پر ڈیل کی بجائے، ذلیل کرانیوالے ’’مہاپُرش‘‘ آگئے ہیں۔ انھیں ابلاغ کی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔اگر کچھ نہیں تو پھر سے برگیڈئیر صولت رضا یا ان جیسے کسی اور کی ہی خدمات حاصل کر لیں۔اپ اس پر غور کیوں نہیں کر رہے کہ انٹرنیشنل میڈیا بلوچ علیحدگی پسندوں کی نیوز فیڈ چلاتا رہا ۔ آپ نے ایڈوانٹچ، اپنے ہاتھ میں رکھنے کی بجائے مٹھی بھر علیحدگی پسندوں کے ہاتھ میں دیا۔ وہ اور اپنا بیانیہ بیچنے میں کسی حد تک کامیاب رہے۔

ملک میں جب، آپ غیر جانبدار اور ضمیر پر مبنی آوازوں کا گلہ گھونٹیں گے۔پھر تباہی تو آئے گی ہی۔۔۔؟ قلم کار نے ہمیشہ لکھا میڈیا کو تباہ نہ کریں۔یہ ریاست اور معاشرے کا واچ ڈاگ ہے۔یہ طاقتوروں اور کمزوروں کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔ یہی نظریاتی سرحدوں کا ایک توانا محافظ ہے۔ آپ نے ذاتی ایجنڈے کے چکر میں اسے برباد کرکے، اپنی تباہی کا سامان خود پیدا کیا ہے۔

جائیں میر شکیل الرحمٰن، عطا تاررڑوں، خادم میڈیا سیٹھوں، ذاتی ملازم اینکرورں اور غلام صحافیوں سے کہیں کہ قوم اور دنیا کو قائل کرلیں۔کامران شاہد ڈی جی ائی ایس پی ار سے سوشل میڈیا کے بغض میں انتہائی واحیات اور شکایات پر مبنی سوال کر رہا تھا۔زبردستی سوال ان کے منہ میں ٹھونس رہا تھا جیسے مطالبہ کر رہا ہو کہ اس سوشل میڈیا کا مزید مکو ٹھپیں۔

آخر یہ پیراشوٹر اینکر ،مالشیے صحافی اور آپ اتنے خوفزدہ کیوں ہیں۔ قوم کو اعتماد میں لینے سے آسانی آتی ہے۔صرف قوم ساتھ ہے قوم ساتھ ہے کہہ دینے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ آپ نے اے۔ پی۔ ایس سے کیوں کچھ نہیں سیکھا۔؟

اگر آپ اب بھی سمجھتے ہیں کہ میڈیا کنٹرول پالیسی کے آپ لوزر نہیں ونر ہیں تو آپ سے بڑا وقوف اور احمق اس کرہ ارض پر کوئی نہیں ہے۔میں اس دن سے ڈرتا ہوں جب پینڈولم  غیر جانبدارمیڈیا کی جانب ائے گا تو پھر وہ کیا حشر کریں گے۔اپ بھول رہے ہیں کبھی الطاف حسین کا بھی طوطی بولا کرتا تھا۔

فیک نیوز، معتبر صحافیوں کی ”نیوز“ سے کائونٹر ہوتی ہے۔

چھ سال سے جو کچھ اس ملک اور اداروں میں ہورہا ہے۔ اس میں عسکری اور سیاسی اشرافیہ ، بابوئوں اور صحافیوں کو بھی لے ڈوبی ہے۔ سیٹھوں کی تو بات ہی نہ کریں۔ وہ تو ہر وقت دائو کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ کیا رزاق دائودکیا میر شکیل الرحمٰن، ان کی یہی سرشت ہے۔

جعفر ایکسپریس سانحے میں لیگی وزراء و لیگی صحافیوں، حکومت اوراس کے حواریوں، وزیر دفاع، وزیر خارجہ، وزیر داخلہ اور وزیر اعظم کا رویہ، بیانیہ انتہائی غیر سنجیدہ اور مسترد ترین تھا۔ ایسا نہیں کہ پی۔ ٹی۔ آئی کے فین کلب نے تنقید کرکے کوئی اچھا کام کیا۔؟ مگر اپ کو سمجھنا ہوگا کہ نوجوان غصے میں ہیں۔یہ وقت تو  یکجہتی قائم کرنے اور باہمی اختلافات کو ٹھنڈا کرنے کا تھا۔مگر ستر سالہ حکومتی قیادت نے ثابت کیا کہ وہ عقل و شعور سے عاری لوگ ہیں۔یہ کبھی کچھ نہیں سیکھ سکتے۔(ناصرجمال)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں