تحریر: جاوید چودھری
کسی کے گھر ڈاکا پڑ گیا‘ چوروں نے تجوری کھولی‘ وہ دروازے تک نوٹوں سے بھری ہوئی تھی‘ چوروں نے مالک کو کرسی پر باندھ دیا‘ نوٹ نکال کر فرش پر گرائے اور گننا شروع کر دیے‘ چور نوٹ گنتے جاتے تھے اور مالک کو گالیاں دیتے جاتے تھے‘ وہ بار بار یہ بھی کہتے جاتے تھے ’’ہم اگر درمیان میں تھک گئے تو ہم تمہیں گولی مار دیں گے‘‘ چوروں نے گولی مارنے کا فیصلہ نوٹ دیکھ کر کیا تھا۔
تجوری کا مالک ایک دل چسپ شخص تھا‘ وہ سو روپے کے نوٹ کا عاشق تھا چناں چہ اس کے پاس جتنی بھی دولت جمع ہوتی تھی‘ وہ اس کا سو سو روپے کا چینج لے کر تجوری میں ٹھونس دیتا تھا‘ چوروں کو غصہ تھا مالک چول نے چھوٹے نوٹ کیوں رکھے ہیں؟ نوٹ اگر بڑے ہوتے تو یہ نکالتے‘ تقسیم کرتے اور بھاگ جاتے‘ مالک کی حماقت کی وجہ سے ان کا ’’قیمتی‘‘ وقت ضایع ہو رہا تھا لہٰذامالک کی ایک ہی سزا تھی‘ یہ نوٹ گنیں اوریہ جہاں نوٹ گنتے گنتے تھک جائیں یہ مالک کو گولی مار دیں‘ مالک اب کرسی پر بندھا ہوا چوروں کو دیکھ رہا تھا۔
وہ اپنی دولت کی چوری پر بھی پریشان تھا اور قتل ہونے کے خوف میں بھی مبتلا تھا‘ چور نوٹ گنتے گنتے تھک گئے اور مالک کی طرف دیکھ کر بولے‘ شاہ صاحب ہمارے پاس اب آپ کو گولی مارنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا لہٰذا آپ کلمہ پڑھ لیں اور آنکھیں بند کر لیں‘ شاہ صاحب کو اپنی موت نظر آنے لگی لہٰذا وہ گھبرا کربولے ‘بھائی چور آپ نے اپنی مرضی ہی کرنی ہے لیکن میری درخواست ہے آپ ایک بار انگلیوں پر تھوک لگا کر بھی گننے کی کوشش کر لیں‘ شاید میری جان بچ جائے۔
یہ آفر بے بسی کی انتہا تھی‘ہم انسان جب بے بس ہو جاتے ہیں تو ہم ایسی پیش کش بھی کر دیتے ہیں‘ حکومت بھی اب ایسی ہی بے بسی سے گزر رہی ہے‘ یہ لوگ ایک سال میں ملک چلانے کے تمام طریقے آزما چکے ہیں‘حکومت نے ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت کو جیلوں میں پھینک کر بھی دیکھ لیا‘ آئی ایم ایف سے بچنے کی کوشش بھی کر لی‘ پورے ملک پر اندھا دھند ٹیکس لگا کر بھی دیکھ لیا‘ درآمدات بھی بند کر لیں‘ کرنسی کو30فیصد ڈی ویلیو بھی کر لیا‘ دوست ملکوں سے قرضے بھی لے لیے‘ چین‘ سعودی عرب اور یو اے ای کی منت بھی کر لی‘ امریکا کو سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کی پیش کش کر کے بھی دیکھ لیا۔
میڈیا کو بھی مرغا بنا کر دیکھ لیا‘ سرمایہ کاروں‘ بزنس مینوں‘ صنعت کاروں اور تاجروں کو بھی نچوڑ کر دیکھ لیا‘ نیب کو کھلی چھٹی دے کر بھی چیک کر لیا‘ کابینہ میں ردوبدل کر کے بھی دیکھ لیا‘ وزیروں کو خودمختاری دے کر بھی چیک کر لیا‘ دیسی وزیر خزانہ بھی آزما لیا اور وزیر خزانہ درآمد کر کے بھی دیکھ لیا‘آئی ایم ایف سے اسٹیٹ بینک کا گورنر ادھار لے کر بھی چیک کر لیا‘ جاگیر داروں کی ساری شرطیں مان کر بھی دیکھ لیا اور رئیل اسٹیٹ ٹائی کونز اور بڑے بزنس مینوں کو رعایتیں دے کر بھی دیکھ لیا اور بیورو کریٹس کو دبا کر بھی چیک کر لیا اور انھیں خود مختاری اور اعتماد دے کر بھی آزما لیا مگر ملک کے مسئلے حل نہیں ہو سکے۔
ملک پھنستا اور بگڑتا چلا گیا‘ حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ اب صرف تھوک لگا کر نوٹ گننے کا آپشن بچا ہے اور حکومت اب اس پر کام کررہی ہے‘ یہ آپشن کیا ہے؟ آپ یہ وفاقی وزراء کے منہ سے سن لیں‘ وزراء کابینہ کے اجلاسوں میں ببانگ دہل کہہ رہے ہیں ہم جب تک نواز شریف اور آصف علی زرداری سے جان نہیں چھڑا لیتے ہم اس وقت تک ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکیں گے‘ ہم نے 14 ماہ میں جب بھی پارلیمنٹ میں کوئی اچھا بل لانے کی کوشش کی یا کوئی مفید قانون سازی کرنا چاہی تو کوئی نہ کوئی پروڈکشن آرڈر ہمارا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا یا پھر اپوزیشن نے نواز شریف اور آصف علی زرداری کی بیماری کا بہانہ بنا کر ایوان جام کر دیا۔
یہ لوگ وزیراعظم کو بھی ایوان میں جانے اور بولنے کی اجازت نہیں دیتے‘ عوام بھی اب ہر اچھی بری صورت حال میں جیل میں بند لیڈروں کی طرف دیکھتے رہتے ہیں اور یہ مجرم میڈیا کی زیادہ تر توجہ بھی حاصل کر لیتے ہیں‘ ٹیلی ویژن اگر سارا دن ان کی بیماری کا ڈھنڈورا پیٹتے رہیں گے یا ان کی پیشیوں اور تفتیش کی خبریں دیتے رہیں گے توان کے پاس حکومت کے اچھے کاموں کی تشہیر کا وقت کہاں بچے گا چناں چہ ہم اگر کام کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں جلد سے جلد ان سے جان چھڑا نا ہوگی‘ یہ لوگ حکومت کو جو کچھ دیتے ہیں ہم لیں اور انھیں ملک سے جانے دیں‘ یہ علاج کے لیے بھی جاتے ہیں تو ہمیں ان کے راستے میں رکاوٹ کھڑی نہیں کرنی چاہیے۔
وزیراعظم یہ تجویز مسترد کر دیتے تھے لیکن یہ بھی اب ان لوگوں کی طرف دیکھ رہے ہیں جو ڈیڑھ سال سے کہہ رہے ہیں ہم آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف سے ہزار ہزار ارب روپے نکلوا لیں گے‘ وزیراعظم کو بھی بتایا گیا تھا یہ لوگ پانچ پانچ سو ارب روپے دینے کے لیے تیار ہیں مگر ہم آٹھ سو ارب روپے پر ڈٹے ہوئے ہیں‘ یہ بھی بتایا گیا تھا عرب ملکوں کے شاہی خاندان شریف فیملی کی رقم دینے کے لیے تیار ہیں مگر ہم یہ کہہ رہے ہیں یہ لوگ یہ رقم خود دیں‘ پلی بارگین کریں اور ملک سے باہر چلے جائیں‘ وزیراعظم نے اب ان لوگوں سے بھی پوچھنا شروع کر دیا ہے پلی بارگین کہاں ہے؟
وہ سعودی خاندان اور ان کی آفرز کہاں ہیں اور آپ پانچ سو ارب روپے ہی لے لیں‘ آٹھ سو ارب روپے پر لعنت بھیجیں مگر دوسری طرف مکمل خاموشی ہے‘ ان دونوں پہلوئوں نے مل کر حکومت کو بے بس کر دیا اور ریاست نے بھی یہ سوچنا شروع کر دیا۔عین ممکن ہے حکومت واقعی ان دونوں لیڈروں کی وجہ سے پرفارم نہ کر پا رہی ہو چناں چہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو طبی این آر او دینے کا فیصلہ کر لیا گیا‘ میاں نواز شریف لندن کی مکمل تیاری میں ہیں‘ یہ علاج کے لیے چلے جائیں گے اور یہ جب تک مکمل صحت مند نہیں ہو جاتے ان کی واپسی ممکن نہیں ہو گی‘ برطانیہ کے ڈاکٹر انھیں پلیٹ لیٹس کی کمی کے ساتھ کسی قیمت پر سفر کی اجازت نہیں دیں گے۔
میاں شہباز شریف کو بھی بھائی کے علاج کے لیے لندن رہنا پڑ جائے گا‘ یہ آتے جاتے رہیں گے مگر ان کا زیادہ وقت بھائی کے ساتھ ہی گزرے گا‘ آصف علی زرداری کی کراچی منتقلی اور پھر طبی بنیاد پر ملک سے باہر جانا بھی اب زیادہ دنوں کی بات نہیں‘ یہ جعلی اکائونٹس کیسز میں ملوث اپنے ساتھیوں کو پلی بارگین کی اجازت دے دیں گے‘ یہ لوگ نیب کو رقمیں دیتے رہیں گے اور رہا ہوتے رہیں گے یوں جعلی اکائونٹس کی زیادہ تر رقمیں سرکاری خزانے میں چلی جائیں گی۔
حکومت اگر ان رقموں کو این آر او کی قیمت کہہ لے تو ٹھیک لیکن آصف علی زرداری حکومت کو کوئی رقم دیے بغیر علاج کے لیے باہر جائیں گے‘ حکومت کے راستے کی یہ دونوں رکاوٹیں ہٹ رہی ہیں مگر عمران خان اس کے باوجود کل بھی فرما رہے تھے میں کسی کو این آر او نہیں دوں گا‘ وزیراعظم سے کوئی پوچھے جناب اور این آر او کیا ہوتا ہے؟ آپ 22 سال کہتے رہے میں اقتدار میں آئوں گا اور ان سب کو الٹا لٹکا کر لوٹی ہوئی رقم واپس نکالوں گا لیکن رقم تو دور یہ لوگ خود ہی نکل گئے‘ آپ اگر اپنے قول کے سچے تھے تو پھر آپ نے سمجھوتہ کیوں کیا؟
آپ یہ کہتے تھے یہ لوگ علاج کے نام پر گھروں‘ اسپتالوں اور لندن میں جا بیٹھتے ہیں جب کہ چھوٹے چور جیلوں میں گھٹ گھٹ کر مر جاتے ہیں‘ آپ کو اگر اپنے الفاظ کا اتنا ہی پاس تھا تو پھر آپ ڈٹ جاتے‘ آپ پھر رقم کی وصولی تک کسی کو رعایت نہ دیتے مگر حکومت رعایت دینے پر بھی مجبور ہوئی اور یہ اب اپنے ہاتھوں سے ان کا نام ای سی ایل سے بھی نکال رہی ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ حکومت اب ان لوگوں کو اپنی پرفارمنس کے راستے کی رکاوٹ سمجھ رہی ہے‘یہ انھیں ہٹانا چاہتی ہے۔
آپ ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے حکومت کے اپنے ترجمان کہہ رہے ہیں نواز شریف اور زرداری نے مولانا کے دھرنے کا فائدہ اٹھا لیا‘ گویا حکومت خود اعتراف کر رہی ہے یہ مولانا کی وجہ سے ان لوگوں کو طبی این آر او دے رہے ہیں‘ کیا یہ پسپائی یا یہ اعتراف شکست نہیں؟ وزراء یہ بھی کہہ رہے ہیں ہم نے پالیسی سازوں سے درخواست کی آپ ان لوگوں کو باہر جانے دیں تاکہ حکومت کام کر سکے‘ ہم ان کی وجہ سے اپنی وزارتوں پر توجہ نہیں دے پا رہے‘ ہم اگر روز ان کی جلائی ہوئی آگ بجھاتے رہیں گے تو پھر ہمارے پاس کام کے لیے وقت کہاں سے آئے گا؟ یہ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے جانے سے ہمارے دم میں دم آئے گا‘ ہم پرفارمنس پر توجہ دے سکیں گے۔
یہ خواجہ برادران‘ رانا ثناء اللہ‘ شاہد خاقان عباسی اور سید خورشید شاہ سے بھی جان چھڑانا چاہتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں اگر ان میں سے کوئی شخص جیل میں فوت ہو گیا تو وہ پوری حکومت کو لے کر بیٹھ جائے گا چناں چہ یہ ان لوگوں کو بھی ملک سے باہر جانے کا راستہ دینا چاہتے ہیں مگر سوال یہ ہے اگر یہ رکاوٹیں بھی ہٹ گئیں‘ نواز شریف اور آصف علی زرداری بھی ملک سے چلے گئے اور باقی ملزمان کا کانٹا بھی نکل گیا لیکن حکومت اگراس کے باوجود پرفارم نہیں کر پاتی‘ یہ اگر نہیں چل پاتی تو پھر کیا آپشن بچے گا‘ پھر کیا جواز رہ جائے گا‘ پیچھے کیا بہانہ بچ جائے گا؟
اگر انگلیوں پر تھوک لگا کربھی نوٹ نہ گنے جا سکے تو پھرہم کیا کریں گے‘ ہم پھر کس کو این آر او دیں گے‘ ہم کس کو مورد الزام ٹھہرائیں گے! آپ لکھ لیجیے ہم ایک سال بعد پھندا لے کر کوئی نئی گردن تلاش کر رہے ہوں گے۔(بشکریہ ایکسپریس)