تحریر: سید عارف مصطفیٰ
ان گنت دلگداز تحریریں لکھی جاچکیں بہت سے مظاہرے ہوئے اور متعدد احتجاجی ریلیاں بھی نکالی گئیں لیکن میڈیا کے بحران کا اونٹ ابھی تک کسی کروٹ نہیں بیٹھا اب تو ہر طرف بس مایوسی کا غبار ہے یا بے بسی کا اظہار ۔ یہ بھی نوبت آئی کہ اہل صحافت کو بیچ کھانے والے صحافتی رہنماؤں اور تنظیموں کے گریبان پکڑ لینے کی باتیں ہونے لگیں لیکن نہ تو وہ اپنی خو کو بدلنے تیار ہیں نہ ہی مظلوم صحافی اپنی وضع داری سے دستبرداری پہ آمادہ ۔۔ دوسری طرف حکومت کی بے ڈھنگی چال جو پہلے تھی سو اب بھی ہے ۔ اس نے میڈیا ھاؤسز کو اشتہارات کی واجب الادا رقم کا محض دس فیصد حصہ دے دلا کے گویا جان ہی چھڑالی اور اس معاملے کی سنگینی کی طرف سے اپنی آنکھیں یکسر بند کرلی ہیں بالکل اس کبوتر کی طرح جو بلی کے آجانے پہ فوراً اپنی آنکھیں موند کے یہ سمجھا تھا کہ بلی چلی جائیگی ۔ لیکن اس معاملے میں یقینناً اور ہرگز ہرگز ایسا نہیں ہوگا کیونکہ دم بدن متاثرہ افراد کی روز افزوں بڑھتی محرومیاں انکی اندرونی تپش کو بھی بڑھاتی جارہی ہیں اور یہ تپش کسی روز آگ کے ایسے مہیب شعلوں میٰں تبدیل ہوتی دکھتی ہے کہ جو حکومتی ایوانوں کو بھی سوختہ کرکے رکھ دیں گے۔
لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ آخر اس میڈیائی بحران کو اس درجہ برے انجام تک پہنچنے ہی کیوں دیا جائے اور بہت کچھ خاکستر ہوجانے سے بچالنے کی راہ اختیار کیوں نہ کی جائے وگرنہ تلافی کا موقع ہی نہ رہے گا – ویسے بھی حکومت نے اپنی دانست میں جہاں اپنے مفاد کو خطرے میں پایا ، کوئی بڑا قدم اٹھا ہی لیا ہے ، جسکی بڑی مثال پی ٹی وی کو وزیر اطلاعات فؤاد چوہدری کی دستبرد سے نکالنے کا اقدام ہے جو کہ کئی ماہ سے اسکے ایم ڈی ارشد خان سے مسلسل نبرد آزما تھے لیکن جنکی عمدہ کارکردگی سے وزیراعظم پوری طرح مطمئن تھے اور انہیں مکمل تحفظ دیئے رکھا تھا حتٰی کہ یہ تنازع جب شدید تر ہوگیا تو انہوں نے ارشد خان کو نکالنے کے بجائے پی ٹی وی ہی کو وزیر اطلاعات کے دائرہء اختیار سے نکال دیا اور اس ادارے کو اپنے مشیر یوسف یگ مرزا کے ماتحت کردیا ۔ یقینناً انکے اس حیران کن اقدام پہ فؤاد چوہدری ابتک خجالت اور طیش سے اپنے دانت پیس رہے ہونگے مگر وزیراعظم کا یہ مضبوط اسٹینڈ ناگزیر تھا جبھی بروئے عمل لایا گیا لیکن کیا اس یہ بات بالکل صاف نہیں ہوجاتی کہ وہ اپنے وزیر کی طرف سے بیحد شاکی تھے اور اس ضمن میں انکی پالیسی اور کارکردگی سے بہت نالاں تھے – تاہم اب یہاں اس اقدام کے بعد اسی سے ایک معاملہ توازن اور انصاف کی عدم پاسداری کا بھی نمودار ہوگیا یعنی یہ کہ وزیراعظم کو اپنے سرکاری چینل کے معاملات کی بہبود اور بہتری تو اس قدر عزیز ہے کہ اپنے وزیراطلاعات کوبھی دھول چٹانے سے گریز نہ کیا لیکن یہاں اسی وزیر کی فسادی حکمت عملی کے نتیجے میں نجی شعبے کے چینلوں کی بربادی پہ وہ یکسر آنکھیں موندے بیٹھے ہیں اور اب جبکہ اسی وزیر کی غلط ترجیحات نے نجی سلامتی اور بقاء تک داؤ پہ لگادی ہے اور ہزاروں میڈیائی ملازمین کو تنخواہوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔ وزیراعظم کی جانب سے اصلاح احوال کا کوئی قدم نہ اٹھانا تشویشناک امر ہے۔
اب جبکہ معاملات ڈیڈ لاک کا شکار ہیں کیونکہ میڈیا ئی بحران کے معاملے میں میڈیا مالکان اور حکومت ، دونوں ہی دو بیحد مختلف مؤقف پہ ڈٹے ہوئے ہیں تو مناسب یہ ہے کہ کسی درمیانے حل یا نئے حل کی جانب بھی غور و خوص کیا جائے اور اسی سلسلے میں میری تجویز یہ ہے کہ ملک بھر کے سرکاری ملازمین کو اخبار بینی کی طرف لایا جائے جس سے اصل فائدہ انکی نئی نسل کو پہنچے گا – چونکہ حکومت کو ہر برس انکی تنخواہوں میں اضافہ کرنا ہی پڑتا ہے چنانچہ آئندہ یہ اضافہ کرتے وقت اس عنصر کو بھی اس بڑھوتری میں سمو لیا جائے اور ملازمین سے یہ آپشن لے لیا جائے کہ وہ کونسا اخبار پڑھنا چاہتے ہیں اور منظور شدہ کنٹریکٹرز کے تؤسط سے وہی اخبار اسکے گھر پہنچانے کا فول پروف سسٹم وضع کیا جائے- چونکہ کوئی بھی اخبار محض خبروں پہ مشتمل نہیں ہوتا بلکہ اس میں مختلف موضوعات پہ مضامین اور اطلاعاتی رپورٹس بھی شائع ہوتی رہتی ہیں چنانچہ یہ اقدام سرکاری ملازمین اور انکے اہلخانہ کی آگہی و علمی تربیت میں بہت مددگار ثابت ہوگا ساتھ ہی ساتھ اس اقدام کے نتیجے میں ملک میں مرتا ہوا پرنٹ میڈیا ایک بار پھر توانائی پاسکے گا کیونکہ لاکھوں سرکاری ملازمین کو اخبارات کی فراہمی سے پرنٹ میڈیا کو موجودہ ابتر صورتحال سے نکالا جاسکے گا ۔۔
اسی طرح تمام قومی اداروں اور نجی کاروباری و صنعتی اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے اداروں میں کم سے کم حد کی تنخواہ سے زائد تنخواہ کی کوئی بھی خالی اسامی کسی ایک بڑے اور ایک چھوٹے چینل سے مشتہر کرانے کے بعد ہی پر کرسکیں گے اور اسکے لیئے یہ چینل اپنے پرائم ٹائم کے علاوہ کوئی وقت مقرر کرکے خصوصی رعایتی ریٹس پہ اعلان کردہ خصوصی وقت پہ ان اشتہارات کو چلائیںگے تاکہ جہاں ایک طرف اخبارات خریدنے کی سکت نہ رکھنے والے لوگ اس سہولت سے مستفید ہوسکیں گے اور عام آدمی بھی ان اسامیوں کی ضرورت سے باخبر ہوسکے گا وہاں دوسری طرف اس اقدام سے الیکٹرانک میڈیا کو بھی بڑے پیمانے پہ اشتہارات میسر آسکیں گے اور اس مد میں وہ صرف حکومتی مدد کے لیئے فریاد کناں نہیں رہیں گے -یہ بھی اشد ضروری ہے کہ ان دونوں مجؤزہ اقدامات کو فوری طور پہ عملدرمد کے مرحے تک لے آیا جائے تاکہ میڈیا کا طویل عرصے سے جاری بحران اب بتدریج تھم سکے کیونکہ اب تو میڈیا ورکرز کی کمر ٹوٹنے کو ہے جسے اگر بروقت سہارا نہ دیا گیا تومایوس و مشتعل میڈیا ورکرز کچھ بھی کرگزرنے سے دریغ نہیں کرینگے اور ایسے موقع انہیں جبر کی طاقت سے بھی روکنا ممکن نہ رہے گا-(سید عارف مصطفیٰ)۔