تحریر: مظہر عباس۔۔
لگتا ہے ’’فائر وال‘‘ کے ذریعے میڈیا کو دیوار میں چننے کی تیاری مکمل ہے۔ اب پتا نہیں ٹارگٹ میڈیا ہے یا ’’ڈیجیٹل پی ٹی آئی‘‘ ہر دو صورتوں میں نقصان مسلم لیگ (ن) اور موجودہ حکومت کا ہوگا جو میڈیا مخالف قوانین لانے میں نئے ریکارڈ قائم کررہی ہے۔ 2016ء میں پیکا لائے اور اب اس کے تسلسل میں میڈیا اتھارٹی، پھر ہتک عزت کے قانون کے نام پر پنجاب میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کی تیاری اور اب برادر ملک چین سے ’’فائر وال‘‘ کے ذریعے سوشل میڈیا پر وار۔ اتنے قوانین آزادی سلب کرنے کے تو جنرل ضیاء اور جنرل مشرف نہیں لے کر آئے تو یقیناً ’’مبارک باد‘‘ تو بنتی ہے۔ اب حکومت یہ سب اپنی خواہش پر کررہی ہے یا کسی کی پراکسی کے طور پر تصدیق بنا کچھ کہہ نہیں سکتا۔
یہاں صحافی مارے جارہے ہیں، میڈیا زیر عتاب ہے، سنسر شپ ہے، ٹارگٹ صرف میڈیا ہے۔میڈیا میں ’’ہتک عزت‘‘ کے قانون کو جو2002ء میں لایا گیا چند تحقیقات کے بعد مان لیتا ہوں مگر اس وقت بھی کہا اور آج بھی کہتا ہوں کہ حکومتوں کی نیتوں کا فتوردکھائی دیتا ہے، آپ بہتر نہیں کرنا چاہتے، ٹارگٹ کرنا چاہتے ہیں مخالفین کو، میڈیا پر جب بھی سنسر شپ لگتی ہے تو سمجھ لیں میڈیا کچھ تو اچھا کام کررہا ہے۔ اگر صحافی شہید ہورہے ہیں، لاپتہ ہورہے ہیں، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تو یہ جان لیں کہ میڈیا اچھا کام کررہا ہے۔ 1857ء سے لے کر آج تک صحافت کو قابو کرنے کیلئےکالے قوانین لائے گئے، کل یہ کام انگریز کررہا تھا، آج کالے انگریز اور انکے غلام۔
سو بسم اللہ کیجئے ’’وال‘‘ کھڑی کرنی ہے، کریں۔ سنسرشپ لگانی ہے، لگائیں، ان کا مقابلہ کل بھی کیا تھا، آج بھی کریں گے، بس فرق اتنا ہے کہ پی ٹی آئی کے دور میں مسلم لیگ کی قیادت ہمارے ساتھ بیٹھی تھی آج پی ٹی آئی کی۔ بس ہماری صحافتی تنظیموں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ اپنے اختلافات ختم کریں، خراب حالات آنے والے ہیں۔ اس لیے تیرا جان محمدمیرا نصر اللہ گڈانی اور تیری PFUJ اور میریPFUJنہ کریں۔ایسے میں کچھ صحافیوں نے چند سال پہلے مختلف فورم بنائے، ان میں سے ایک ’’فریڈم نیٹ ورک‘‘ نے سال بھر کی محنت سے صوبہ سندھ میں خاص طور پر سندھی میڈیا کے حوالے سے رپورٹ تیار کی ہے کیونکہ اردو، انگریزی کے بعد سندھی میڈیا سب سے موثر ہے۔ اس رپورٹ میں صرف حقائق اور واقعات نہیں بلکہ تجاویز بھی شامل ہیں کہ صحافت اور صحافیوں کو درپیش مسائل سے نکالنے کا حل کیا ہے۔؟ تقریباً50صفات پر مشتمل یہ تحقیقاتی رپورٹ پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ صحافیوں پر حملوں کے محرکات کیا ہیں۔
ویسے تو پورے ملک میں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی صورت حال انتہائی خراب ہے اور خود میڈیا ہائوس کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں، مگر اس ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں جتنے منہ اتنی باتیں والی صحافت ہورہی ہے۔ البتہ مرکز اور باقی صوبوں کے مقابلے میں صوبہ سندھ پہلا صوبہ ہے جہاں صحافیوں کے تحفظ کیلئے سب سے پہلے2021ء میں جرنلسٹ پروٹیکشن کمیشن بنایا گیا، جس کے پہلے سربراہ جسٹس رشید رضوی مرحوم اور اب دوسرے جسٹس (ر) نظر اکبر ہیں۔ ایسا ہی کمیشن مرکز اور صوبوں میں فوری بنانے کی ضرورت ہے۔
آج کا چیلنج ’’ڈیجیٹل یا سوشل میڈیا‘‘ ہے۔ یہ انفارمیشن کا بھی موثر ترین پلیٹ فارم ہے اور ڈس انفارمیشن کا بھی۔ حل ’’X‘‘ یا سابقہ ’’ٹوئٹر‘‘ پر بے جا پابندی نہیں۔ یہ کیسی پابندی ہے کہ میں نے ’’X‘‘ پر پابندی کے بعد کبھیVPNکا سہارا نہیں لیا، مگر کوئی صاحب میری تصویر کے ساتھ اردو میں مسلسل ٹویٹ کررہے ہیں۔ ویسے تو میرے ہم نام بہت سے ہیں اور کبھی گورنر ہائوس اور وزیراعلیٰ ہائوس تو کبھی کوئی اشتہاری کمپنی کے دوست معلوم کرتے ہیں۔ ’’سر آپ کی درخواست آئی ہے۔‘‘ اور مجھے کہنا پڑتا ہے، بھائی میں نے کوئی درخواست نہیں دی۔ اس طرح ’’فیس بک‘‘ پر بھی بنا تصویر ایک صاحب میرے نام کا استعمال کررہے ہیں۔ اگر وہ ’’صحافت‘‘ کریں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ یہ مسئلہ صرف میرے ساتھ ہی نہیں بہت سے معتبر لوگوں کو درپیش ہے۔ مثلاً انور مقصود صاحب، مگر یہ چیلنجز ہیں، ان کا حل پابندی یا میڈیا کو کنٹرول کرنا نہیں۔ اب اس پر میں کیا کہوں کہ ’’ہتک عزت‘‘ کا قانون وہ بنا رہے ہیں جو ہر روز عوام کی ہتک کرتے ہیں۔ سرکاری اشتہاروں میں روز جھوٹ کا پرچار ہوتا ہے۔ اشتہار کو خبر کے انداز میں پیش کرکے ڈس انفارمیشن پھیلائی جاتی ہے۔
جو ہمارے دوست سمجھتے ہیںکہ میڈیا یا صحافی اپنا احتساب نہیں چاہتے، وہ غلطی پر ہیں۔ ہم تو شہادتیں پیش کررہے ہیں، بہ مشکل کسی کیس میں قاتل پکڑے جاتے ہیں۔ شاید2008ء سے تقریباً ہر حکومت اور وزیر اطلاعات کو ٹھوس تجاویز دی گئیں۔ 2008ء میں اس وقت کی وزیر اطلاعات شیری رحمن صاحبہ کو ’’میڈیا کمپلینٹ کمیشن‘‘ کی ٹھوس تجویز دی۔ آنے والے وزرائے اطلاعات سے بھی یہی درخواست کی گئی۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے حامد میر اور دیگر کی درخواست پر وزارت اطلاعات سے ’’سیکریٹ‘‘ فنڈ ختم کرایا تاہم اچھا ہوتا،اگر وزارت اطلاعات ختم کردی جاتی جسکی درخواست بھی کی گئی تھی۔
پریس کونسل بھی احتساب کا ایک فورم ہے، جسے موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ پیمرا قوانین میں بات چیت کے ذریعے اس حد تک تو بہتری آئی کہ آئندہ چیئرمین پیمرا کا تقرر پارلیمنٹ کی کمیٹی کی تجاویز پر ہوگا۔ کونسل آف کمپلینٹ کے ممبران بھی کمیٹی کے ذریعے متعین کیے جائیں۔ ’’ڈیجیٹل میڈیا‘‘ پر بھی سب میڈیا کے اسٹیک ہولڈرز، ڈیجیٹل میڈیا کی تنظیمیں مل کر پہلے ان رجحانات اور ٹرینڈز کا جائزہ تو لیں، کیا فیک ہے اور کیا فیکٹ ہے۔ کیا انفارمیشن ہے، کیا مس انفارمیشن ہے، کیا ڈس انفارمیشن ہے۔ کوئی اظہار رائے کررہا ہے تو یہ اس کا حق اگر فیک نیوز پھیلا رہا ہے تو قانون کے مطابق کارروائی کریں اور ثابت کریں مگر سیاسی انتقام کا نشان نہ بنائیں، کسی کو دیوار میں چننےکیلئے فائز وال یا دیوار چین نہ بنائیں۔
چین اپنا یار ہے
اس پر جاں نثار ہے
پر وہاں جو ہے نظام
اس طرف نہ جائیو
اس کو دور سے سلام
یاد رکھیں ’’پابندیاں‘‘ یا سختیاں کبھی مسئلے کا حل نہیں پیش کرتیں، یہ آمرانہ سوچ ہے۔ جب سوشل میڈیا نہیں تھا، سنسر شپ توتب بھی تھی، پرنٹ کا زمانہ ہو یا الیکٹرونک میڈیا کا۔ سنسر شپ کا تعلق کسی نئے میڈیم سے نہیں بلکہ اظہار رائے کے خوف سے ہے۔ یہ جو ’’ڈیجیٹل جن‘‘ ہے اب بوتل میں جانے کو تیار نہیں، بہتر ہے اسے خطرہ نہیں چیلنج کے طور پر لیں۔(بشکریہ جنگ)۔۔