تحریر: رضوان گورمانی۔۔
آج کل میڈیا کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ لوگ خبروں سے زیادہ ڈراموں کا کاروبار چلا رہے ہیں۔ صبح اٹھتے ہی ٹی وی آن کرو تو ایک اینکر چیخ رہا ہوتا ہے، “بریکنگ نیوز! ملک میں دال مہنگی ہو گئی!” اور دوسرا اینکر اسی وقت بتا رہا ہوتا ہے، “ایک سیاستدان نے چائے میں چینی نہ ملائی، قومی بحران پیدا ہو گیا!” اب بھلا بتائیں، ہم عام لوگ کیا کریں؟ دال کھائیں یا چائے پی کر سیاستدانوں کو کوسیں؟
ہمارے ہاں میڈیا کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک چھوٹی سی بات کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے کہ لگتا ہے دنیا ختم ہونے والی ہے۔ کل کی بات ہے، ایک چینل پر خبر چلی کہ “لاہور میں کوا اڑتے ہوئے بجلی کے تار سے ٹکرا گیا!” بس پھر کیا تھا، پانچ منٹ میں اس کوے کے لیے پوری قوم دعائیں مانگ رہی تھی، اور دس منٹ میں اینکر نے اسے “قومی پرندہ” قرار دے دیا۔ شام تک ایک پینل ڈسکشن شروع ہو گئی کہ “کیا کوے کی وجہ سے بجلی کا نظام تباہ ہو رہا ہے؟” اور رات تک ایک مشہور اینکر نے اسے سیاست سے جوڑ دیا کہ “یہ سب حکومت کی سازش ہے، کووں کو تربیت نہیں دی جا رہی!”
اور پھر اشتہارات! میڈیا والوں نے تو کمال کر دیا ہے۔ خبر چل رہی ہوتی ہے کہ “ملک میں بارشیں متوقع ہیں” اور اگلے ہی لمحے اشتہار آتا ہے، “ہمارا صابن آپ کے بالوں کو برسات سے بچائے گا!” اب بھلا بارش کا بالوں سے کیا تعلق؟ لیکن ہمارے میڈیا کو ہر چیز میں “سنسنی” چاہیے۔ اگر خبر میں سنسنی نہ ہو تو وہ خود بنا لیتے ہیں۔ کل رات ایک اینکر نے کہا، “ہمارے پاس ایسی ویڈیو ہے جو آپ کی راتوں کی نیند اڑا دے گی!” اور پھر دکھایا کہ ایک بلی چھت پر بیٹھی میاؤں میاؤں کر رہی ہے۔ واہ بھائی واہ، یہ ویڈیو تو میری امی کو دکھاؤں گا، وہ کہیں گی، “ارے یہ تو ہمارا موٹی ہے، کہاں چلا گیا تھا؟”
سوشل میڈیا نے تو میڈیا کی واٹ ہی لگا دی ہے۔ اب ہر بندہ خود کو صحافی سمجھتا ہے۔ کوئی واٹس ایپ پر میسج فارورڈ کر رہا ہے کہ “سرکار نے چینی پر ٹیکس لگا دیا!” اور دوسرا ٹویٹ کر رہا ہے کہ “چینی اب سونے سے مہنگی ہو گئی!” پھر اصلی میڈیا والے اسے اٹھاتے ہیں اور شام تک پینل میں چار لوگ بیٹھ کر چیخ رہے ہوتے ہیں کہ “چینی کا بحران کیسے حل ہوگا؟” کوئی کہتا ہے “چائے بند کر دو!” کوئی کہتا ہے “مٹھائی چھوڑ دو!” اور ہم غریب عوام سوچ رہے ہوتے ہیں کہ “بھائی، ہم تو ویسے ہی چینی کے بغیر چل رہے ہیں، اب کیا اپنا دل میٹھا کرنے کے لیے چھریاں کھائیں؟”
ایک بات تو ماننی پڑے گی، ہمارا میڈیا بہت تخلیقی ہے۔ اگر کوئی سیاستدان صبح کہے کہ “میں آج کچھ نہیں بولوں گا” تو شام تک میڈیا اس کے “خاموش رہنے” کو “بڑا بیان” بنا دیتا ہے۔ اینکر پوچھتا ہے، “کیا اس خاموشی کے پیچھے کوئی راز ہے؟” اور پینل کا ایک بندہ کہتا ہے، “جی بالکل، یہ خاموشی ملک کے مستقبل کے لیے خطرہ ہے!” واہ، یعنی بولے تو بھی مصیبت، نہ بولے تو بھی مصیبت!
آخر میں بس اتنا کہوں گا کہ میڈیا ہماری زندگی کا مسالہ ہے۔ بغیر اس کے ہماری چائے بھی پھیکی اور دال بھی بے مزہ۔ تو اگلی بار جب کوئی اینکر چیخے کہ “بریکنگ نیوز! آلو مہنگا ہو گیا!” تو ٹینشن نہ لیں، بس آلو کے چھلکوں سے چائے بنا لیں اور میڈیا کا مزہ لیں۔ کیونکہ یہاں خبر ہو یا نہ ہو، ڈرامہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔۔(رضوان گورمانی)۔۔