تحریر: ظہیر اختر بیدری
میڈیا ہر ملک کے عوام کی زندگی بہتر بنانے، ان کا معیار زندگی بلند کرنے میں بالواسطہ بہت مدد کر سکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ سیٹ اپ میں دولت کا زیادہ سے زیادہ حصول ہر فرد کا مقصد ہوتا ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے اس نظام کو جن خطوط پر استوار کیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قومی دولت کا 80 فیصد حصہ دو فیصد اشرافیہ کے قبضے میں آ گیا ہے اور 20 فیصد میں 22 کروڑ عوام عذاب کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کے عوام فقیروں کی طرح زندہ ہیں اور دو فیصد بددیانت 80 فیصد دولت سے بادشاہوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔
72 سال بعد ایک بنیادی تبدیلی یہ آئی ہے کہ بالکل نئے حکمران برسراقتدار آئے ہیں۔یہ اتنی بڑی تبدیلی ہے کہ تبدیلی لانے والے جو بھی ہوں انھوں نے ایک بڑا کام کیا ہے۔ عمران خان ایک ’’نیم پختہ‘‘ ذہن کا مالک شخص ہے اور چونکہ پہلی بار اقتدار میں آیا ہے لہٰذا وہ کارکردگی نہیں دکھا سکتا جو تجربہ کار گھاگ دکھا سکتے ہیں، عمران خان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مخالفین نے عمران خان کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفان اٹھا رکھا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے اپنے نظام کو مضبوط اور اپنے طبقے کو ملک و معاشرے پر حاوی رکھنے کے لیے جہاں اور بہت ساری احتیاطی تدابیر اختیار کر رکھی ہیں وہیں انھوں نے اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے صحافیوں، اینکروں اوردانشوروں کا ایک طبقہ رکھا ہوتا ہے جوان کے طبقاتی مفادات کا محافظ بن گیا ہے اور بڑی خوبصورتی سے اس نظام کے حق میں دلائل دیتا رہتا ہے۔ بلکہ سچا دانشور اور صحافی ایماندارنہ اور سادہ زندگی گزارنے کو ترجیح دیتا ہے۔ مثال کے طور پر نادر شاہ عادل کو لے لیں جنھوں نے اپنی زندگی اسی دشت کی سیاہی میں گزاری ہے لیکن یہ صحافی اور دانشور کسی کا آلہ کار نہیں بنا۔ لیاری کی گلیوں میں پرورش پانے والے اس دانشور کو معاشرے میں وہ مقام حاصل نہیں ہو سکا جس کا وہ حق دار ہے۔
اس ملک میں 22 کروڑ عوام رہتے ہیں جو دن بھر سخت محنت کر کے رات کو آدھا پیٹ کھا کر سوتے ہیں اور 2فیصد وہ ہیں جو عوام کی محنت کی کمائی پر عیاشی کی زندگی بادشاہوں کی طرح گزار رہے ہیں۔ میڈیا کا فرض ہے کہ وہ اس نا انصافی کے خلاف آواز اٹھائے۔ اسے میڈیا کی آواز اور غیر جانبداری کے صلیب پر نہ چڑھائے۔ آج ایسے طاقتور سیاستدان جن پر کرپشن کے الزامات ہیں اور وہ جیلوں میں ہیں جنھیں عدالت نے سزا دی ہے، ہمارے قانون اور انصاف کے نظام نے انھیں آج بھی بادشاہوں جیسی زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ ایک سیاستدان بیمار ہے تو اسے جیل سے ضمانت پر رہا کر کے اپنے محل پہنچا دیا گیا ہے۔
ایک اس طرح کے لوگ ہیں جن کے لیے گھر سے زیادہ جیل آرام دہ ہے اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو جاگیردار خاندانوں کے چشم و چراغ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ڈی کلاس کر کے مزدور بستیوں میں رہے اور ظالم حکمرانوں نے حراست کے دوران انتہائی بربریت سے قتل کرا دیا۔ ایسے طبقاتی مظالم کو دبا دیا جاتا ہے تو اہل نظر شرم سے زمین میں گڑھ جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ میڈیا کا کام عوام تک خبریں اصل حالت میں پہنچانا ہوتا ہے۔ ارے بھائی! یہ کیوں نہیں کہتے کہ میڈیا کا کام اس طبقاتی معاشرے میں عوام پر ہونے والے طبقاتی مظالم کسی تحریف کے بغیر عوام تک پہنچانا ہے؟
سنیے عمران خان کوئی انقلابی نہیں نہ اس سے انقلابی اقدامات کی امید کی جا سکتی ہے۔ عمران خان کی اور اس کے ’’دوستوں‘‘ کی حمایت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے لوٹ مار کی اشرافیائی حکومت کو نکال پھینکا ہے بس ایک یہی کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے۔ آج اشرافیائی حلقوں میں جو ہاہاکار مچی ہوئی ہے اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ اشرافیہ سے کلی اقتدار چھن گیا ہے اور اشرافیہ پروٹوکول کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کو اپنی توہین سمجھتی ہے۔ ہمارے دانشوروں کے منہ میں گھی شکر وہ قوم کا خون چوسنے والوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ماتم کر رہے ہیں۔
میڈیا ایک بڑی طاقت ہے سرمایہ دارانہ نظام کے چمچے اس طاقت کو استحصالی عوام کی نمایندگی کرنے کے بجائے اسے غیر جانبداری کی ’’عظمت‘‘ میں لپیٹ رکھتے آ رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی غیر جانبدار ہوتا ہی نہیں۔ یا تو ظلم کے یعنی ظالموں کے ساتھی ہوتے ہیں یا مظلوموں کے۔ میڈیا درمیانے طبقے کے کارکنوں سے بھرا ہوا ہے جو ایک مشکل زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا پیشہ ورانہ ہی نہیں طبقاتی فرض ہے کہ وہ مظلوم طبقات کی کھل کر حمایت کریں اور جو اشرافیہ ایک بار پھر اقتدار میں آنے کی سازشیں کر رہے ہیں ان سازشوں کو ناکام بنا دیں۔(بشکریہ ایکسپریس)