تحریر: شکیل احمد بازغ
میں اب میڈیا ورکر نہیں رہا۔ کیونکہ میڈیا کو مجھ سے بہتر لوگ دستیاب آگئے۔ آپکی صلاحیتیں اپنی جگہ مگر اداروں کو آپ سے کم تنخواہ پر لوگ میسر ہیں۔ اور اب یہ ضروری نہیں کہ آپ اے پلس گریڈ کی قابلیت رکھتے ہوں۔تو ہی ادارے چلیں گے۔ اب کام چلالیا جاتا ہے۔ جنہیں زعم ہو کہ وہ نہایت قابل اور زیادہ تنخواہ کے حقدار ہیں انکے لیئے عرض ہے کہ بسا اوقات آپ دیکھیں گے کہ بظاھر وہ لوگ میڈیا میں آپ سے زیادہ مراعات اور حیثیت پالیتے ہیں جنہیں آپ قابل نہ مانتے ہوں۔ بھئی وہ نصیب کا کھارہے ہیں۔ آپ ڈیکورم ایس او پیز اچھی کارکردگی اور ریگولیریٹی کے باوجود پیچھے رہ جاتے ہیں یا کھیل سے باھر کر دیئے جاتے ہیں۔ اس دنیا میں تو یہی ہوتا ہے۔ زیادہ دل و دماغ کو تھکانے اور طبیعت کو پریشان رکھنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔آپ کی بے دخلی یا دوڑ میں پیچھے رہ جانے کی بڑی اور اصل وجہ ایک ہی ہے۔ کہ اللہ نے آپکو جب تک چاھا آپکی کمی کوتاہیوں کے باوجود ادارے میں رکھا۔ اور جب چاھا آپکی قابلیت کے باوجود آپکو متبادل رزق کے مقام پر لے گیا۔ میرا یہ یقین ہے کہ چونکہ رزق کا وعدہ اللہ کا ہے اور اس ڈیپارٹمنٹ میں کسی بدترین مخالف کے تمام حربے بھی آپکے پاؤں نہیں اکھاڑ سکتے اسی لیئے نہ کسی سے شکوہ دل میں اور نہ زبان پہ۔ میڈیا میں جہاں آپکو روزانہ اپنی سبقت اور بہترین کارکردگی ثابت کرنا ہوتی ہے وہیں اللہ کا شکر بھی ورد زباں ہونا ضروری ہے۔ اور یہ شکر تب زیادہ بڑھ جانا چاہیئے جب آپ وہاں نہیں ہوں جہاں آپ رہنا چاہتے تھے کیونکہ اللہ اپنے بندے کو اس سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ تجربے کی بھٹی سے گزرجانے کے بعد سمجھ اب یہ بھی آتا ہے کہ بہت پہلے سے ملازمت کیساتھ کم سرمائے کا ہی سہی کوئی متوازی کاروبار ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ نوکری تو پھر نوکری ہے آپ اگر ایوارڈز بھی ادارے میں لیتے آئے ہیں اور ہر شام چینل کے مالک کیساتھ چائے کافی یا کھانا بھی کہتے ہیں تب بھی آپ ادارے سے بے دخل ہو سکتے ہیں۔ حفظِ ماتقدم کے طور پر آمدن کا ایک اور ذریعہ رکھنا چاہیئے۔ میڈیا کے کام میں آپکی تنخواہ بھلے کتنی ہی ہو بے برکتی ایسی ہے کہ آپ ماہانہ اخراجات کو بمشکل پورے کر پاتے ہیں۔ جبکہ چھوٹے سے کاروبار میں بھی اللہ نے برکت رکھی ہوتی ہے۔ میں اکثر ہنر مند لوگوں پہ رشک کرتا تھا کہ روزانہ اپنے کام کا اچھا خاصہ پیسہ ہماری جیبوں سے نکلوالیتے ہیں۔ اداروں میں ہم افسران کی فہرست میں ہوکر بھی ہراسانی کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ جبکہ کاریگر کے ناز نخرے بڑے بڑے اٹھاتے ہیں۔ ہم صاف لباس والے ان میلے کپڑے پہنے کاریگروں کی سطح پر آکر انہی کی ٹپوری زبان میں ان سے معاوضہ کم کرانے کی التجائیں کررہے ہوتے ہیں۔ بہتر تو پھر وہ ہوئے۔ ویسے بھی کاریگر میڈیا ورکرز کی طرح وقت سے پہلے ریٹائر نہیں ہوتے۔
کبھی تعلیم کو بہتر مستقبل کا ضامن سمجھا جاتا تھا۔ ہمارے ایک عزیز جو کہ پڑھے لکھے ہیں۔ انہوں نے اپنے دو بیٹوں کو اچھے سکولز سے میٹرک کراکے الیکٹریشن کا کام سکھانے کیلئے ایک جگہ بھیج دیا۔ میں نے وجہ پوچھی کہ ہمارے معاشرے میں اب جسے تعلیم کہا جاتا ہے۔ وہ روزی کمانے کا ذریعہ ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں اور ملک میں تعلیم یافتہ نوجوان تو ہر سال ہزاروں بڑھ رہے ہیں لیکن انکے لیئے روزگار کچھ نہیں۔ تو معاشرے کے ستر اسی فیصد کام کاج ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے لوگ دکانوں مزدوری یا دیگر خدمات کی صورت کر کے بہترین رزق کما رہے ہیں۔ جو توانائیاں سیٹھوں کے تلوے چاٹنے میں صرف کرنی ہیں اس سے بہتر ہے میں اپنے بچوں کو ڈھنگ کا کام سکھا جاؤں تاکہ وہ عزت سے بہتر رزق کما سکیں۔
میں کبھی اس عزیز کی بات سے متفق نہیں تھا۔ آج متفق ہوں۔ لہٰذا میں نے بھی ہنر سیکھ کر کمائی کرنے پر خود کو لگا رکھا ہے۔ ہمت مرداں مدد خدا۔ یقین میرا یہی ہے کہ زندہ رہا تو کچھ ٹکے اس نئے ہنر سے کما ہی لوں گا۔ بفضلِ الٰہی۔ ہاں یہ مکرامے لگژری آئٹمز کا کام اگر میں دو دہائی پہلے متوازی طور پہ شروع کرتا تو ہوسکتا تھا آج یہ میری آمدن کا بڑا ذریعہ ہوسکتا تھا۔کوسنے دینے ،اداروں لوگوں کو شکایات شکوے کرنے کے بجائے فوری مثبت سمت کی جانب خود کی توجہ مرکوز کردیں۔ مٹی ہوکر دھول سے رزق کے ننھے ذرے چننا شروع کریں اور ستھرا ہوکر بچوں کیساتھ بیٹھ کر کھائیں۔ فارغ نہ بیٹھیں کچھ کریں ورنہ آپ ساٹھ سال کی عمر ہونے سے ایک دو دہائیاں پہلے ہی جلد سٹھیا جائیں گے۔(شکیل بازغ)۔۔