تحریر: سلیم صافی
اپنی تباہی کے بڑی حد تک ذمہ دار ہم اہل صحافت خود ہیں اور اس عمل کا آغاز بھی ہم میڈیا والوں نے خود کیا۔ نجی ٹی وی چینلز کی آمد کے بعد ہم میں سے بعض کی گڈی ضرورت سے زیادہ چڑھ گئی اور عدلیہ بحالی تحریک کی وجہ سے غیرمعمولی عزت ملی جس کی وجہ سے ہم اہل صحافت بھی اہل انصاف کی طرح آپے سے باہر ہوگئے۔ ہم میں سے بعض صحافت کے دائرے سے نکل کر جج، مفتی اور لیڈر بننے کی کوشش کرنے لگے۔ ہمارا کام خبر دینا اور تجزیہ کرنا تھا، لیکن ہم میں سے بعض اپنے دائرے سے نکل کر لیڈر بننے کی کوشش کرنے لگے۔دوسرا المیہ اس دوران یہ پیش آیا کہ میڈیا میں بہت سارے گھس بیٹھیے آگئے۔ ایسے ایسے لوگ اینکرز اور تجزیہ نگار بن گئے کہ جن کا ماضی میں اخبار یا ٹی وی سے کوئی واسطہ نہیں رہا تھا۔ دوسری طرف مختلف اہل سرمایہ اپنے اپنے کاروبار اور کالے دھن کے تحفظ کے لئے چینلز اور اخبار کھولنے لگے اور صحافیوں کی بجائے سیٹھ میڈیا کی سمت کا تعین کرنے لگے۔ ایک اور بیماری میڈیا میں یہ درآئی کہ مذہب، تفریح، خبر اور تجزیے کو خلط ملط کردیا گیا۔ ایک ہی بندہ ایک وقت میں دینی پروگرام کی میزبانی کرتا ہے، دوسرے وقت میں کھانے پکانے کی ترکیب بتاتا ہے، تیسرے وقت میں حالات حاضرہ کاپروگرام پیش کرتا ہے اور چوتھے وقت میں خود تجزیہ نگار بنا ہوتا ہے۔اسی طرح اخبارات میں بھی خبر اور تجزیے کی تفریق مٹ گئی۔
آخر میں ایسا دور سامنے آیا کہ سیاسی جماعتوں کے ترجمان بھی ٹی وی تجزیہ نگار بننے لگے۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کردی اور وہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بری طرح اثر انداز ہونے لگا جس کی وجہ سے رہی سہی اخلاقیات کا بھی جنازہ نکل گیاچنانچہ اس افراط و تفریط کا سوسائٹی اور اداروں کی طرف سے فطری ردعمل سامنے آیا۔ ایک طرف عوام کی نظروں میں میڈیا بے وقعت ہونے لگا اور دوسری طرف میڈیا کو کنٹرول میں لیاگیا۔ چنانچہ گزشتہ سالوں میں منظم طریقے سے میڈیا کو بے وقعت کرنے اور اس کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے کی شعوری کوشش کی گئی۔ اس غرض کے لئے ایک طرف میڈیا کو تقسیم کیا گیا۔ دوسری طرف میڈیا میں اپنے کارندوں کو گھسا دیا گیا۔ تیسری طرف مخصوص مقاصد کے لئے چینلز کھولے گئے۔ ایک منظم طریقے سے میڈیا کی آزادی اور وقار کے لئے سرگرم عمل اہل صحافت کو دبایا گیا، بدنام کیا گیا یا پھر لالچ دے کر انہیں خریدنے کی کوششیں ہوئیں۔ میاں نوازشریف کی حکومت نے تدارک کی بجائے خود بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور صحافیوں کو حکومتی مناصب سے نواز کر اس پیشے کو مزید بدنام اور بے وقعت کرڈالا۔دوسری طرف تاثر ہے کہ پی ٹی آئی میڈیا کو بے وقعت کرنے کے اس عمل میں ایک مہرے کے طور پر استعمال ہوئی۔ جو صحافی یا ادارہ لکیر کی سیدھ میں چلنے سے انکار کرتا، اسے پی ٹی آئی کی قیادت اور اس کی سوشل میڈیا کے ذریعے بدنام کرنے کی مہم زور پکڑ جاتی۔ پیمرا حکومتی اور ریاستی ٹول کا کردار ادا کرتا رہا جبکہ عدالتوں سے نہ میڈیا کے متاثرہ لوگوں کو انصاف ملا اور نہ متاثرہ میڈیا کو۔ ایک طرف کفر کے فتوے، دوسری طرف توہین رسالت کے الزامات، تیسری طرف غداری کے الزامات اور چوتھی طرف کرپشن کے الزامات۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج پاکستان کی صحافت، صحافت نہیں رہی بلکہ میڈیا منڈی میں تبدیل ہوگئی اس کی صفوں میں جینوئن صحافی اور گھس بیٹھیے کی تفریق ختم ، کرپٹ اور دیانتدار کی پہچان مشکل ہوگئی اور لوگ حیران ہیں کہ کس کو صحافی مانیں اور کس کو مسخرہ سمجھیں۔
اب ایک طرف میڈیا کی یہ حالت ہے اور دوسری طرف پاکستان حالت جنگ میں ہے اور اس سے تقاضا کیا جارہا ہے کہ وہ ان حالات میں بیرونی دنیا کے سامنے پاکستان کا کیس لڑے یا اس کے خراب عالمی امیج کو بہتر بنائے لیکن سوال یہ ہے کہ جو میڈیا خود داخلی طور پر اپنی بقا کی جنگ لڑر ہا ہو وہ بیرون ملک پاکستان کی جنگ کیسے لڑ سکتا ہے، جو ملک کے اندر اپنا کیس پیش کرنے سے قاصر ہو، وہ دنیا کے سامنے پاکستان کا کیس کیسے پیش کرسکتا ہے اور جس کا اپنا امیج اس قدر خراب ہو، وہ باہر پاکستان کا کیس کیسے پیش کرسکتا ہے؟ اس لئے وزیراعظم عمران احمد خان نیازی صاحب کو اگر پاکستان کو سنوارنا ہے اور وہ واقعی بیرونی دنیا میں پاکستان کی عزت بحال کرنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں پہلی فرصت میں میڈیا کی فکر کرنی ہوگی۔وزیراعظم سے اس مطالبے کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ میں ان سے اپنے خلاف ان کے کارندوں کی طرف سے جاری گالم گلوچ کے عمل کا تدارک چاہتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں اسے وہ کیسے بند کرسکتے ہیں؟ ہم جیسے لوگ اس کے عادی ہوچکے ہیں اور اپنے طریقے سے نمٹنا بھی جانتے ہیں۔ میرا مطالبہ فقط یہ ہے کہ میڈیا کو بے وقعت کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا تھا، اب وہ اس سلسلے کو بند کرنے کا بندوبست اس ملک کی خاطر کرلیں۔ میری ان سے التجا ہے کہ آپ کا مقصد تو حاصل ہوگیا اس لئے اب خدا کے لئے میڈیا کو مزید بے وقعت نہ کیجئے۔
میرا مطالبہ فقط یہ ہے کہ میڈیا پرسنز سے متعلق الزامات کے معاملات کی تحقیقات کریں تاکہ اس میدان میں موجود جینوئن صحافی اور گماشتے الگ الگ ہوجائیں۔ اگرچہ پاکستان کے ادارے پہلے بھی آپ کی پشت پر تھے لیکن چونکہ آپ وزیراعظم نہیں تھے، اس لئے آپ یہ کہہ سکتے تھے کہ چونکہ اختیار کسی اور کے پاس ہے اس لئے آپ الزام لگا کر اپنا فرض پورا کررہے ہیں لیکن اب آپ کے پاس ایسا کوئی عذر نہیں ہونا چاہیے۔ اس لئے میری گزارش ہے کہ فوری طورپر میڈیا کے احتساب کے لئے سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا جائے جو میدان صحافت میں موجود کالی بھیڑوں کے چہروں سے نقاب اٹھادے۔میری گزارش ہوگی کہ یہ کمیشن آغاز ہم اینکروں سے کرے اور پہلی فرصت میں میرا معاملہ اس کمیشن کے سپرد کیا جائے۔ یہ کمیشن میرا اور میرے خاندان کے تمام افراد کے اکاؤنٹس اور اثاثوں کی تحقیقا ت کرے۔ بلکہ سادہ طریقہ یہ ہے کہ مجھ سے شروع کرکے تمام اینکرز اور معروف صحافیوں کے اثاثے سامنے لائے جائیں اور پھر ہر ایک سے کہا جائے کہ وہ ثابت کرے کہ یہ اثاثے کہاں سے آئے ہیں۔ اسی طرح وہ یہ معاملات بھی دیکھے کہ کس صحافی نے کس حکومت، پارٹی، بزنس یا ٹائیکون سے کس شکل میں کیا فائدہ لیا ہے۔ اگر کسی اینکر یا صحافی پر کسی بھی پارٹی، کسی بھی حکومت، کسی بھی ایجنسی یا کسی بھی اہم فرد سے کسی قسم کا فائدہ لینے کا الزام ثابت ہوجائے یا وہ اپنے اثاثوں کو جسٹیفائی (Justify) نہ کرسکے تو نہ صرف اس کی صحافت پر پابندی لگائی جائے بلکہ اسے سخت سے سخت سزا بھی دی جائے۔اس عدالتی کمیشن کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہونی چاہیے کہ وہ گزشتہ بیس سالوں کے دوران وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی وزارت اطلاعات اور ایجنسیوں کے فنڈز سے فائدہ اٹھانے والے صحافیوں کی تفصیلات بھی قوم کے سامنے لائے۔ یہ حقائق بھی سامنے لائے کہ کون کونسا صحافی غیرملکی سفارتخانوں میں جاکر ایک بوتل کے عوض اپنے اور ملک کی عزت بیچتا ہے۔ کون ہے جو صحافت کی آڑ لے کر شریف لوگوں یا پھر اپنے رشتہ داروں کے حق پر قابض ہوچکا ہے۔ کیا اب بھی اس قوم کو پتہ نہیں لگنا چاہیے کہ میدان صحافت میں کون کیا ہے؟ کیا انصاف کا تقاضا نہیں کہ کم ازکم میڈیا کے میدان میں کھوٹے اور کھرے کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے۔۔۔( بشکریہ جنگ۔)