تحریر: ظہیر اختر بیدری
موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے، دنیا کے بیشتر ملک اس ریاستی بیانیے کو سامنے رکھ کر زندگی کے مختلف شعبوں کی پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں لیکن اس حوالے سے ہمارے ملک کا یہ حال ہے کہ ’’اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی‘‘ کا ورد کرکے خاموش ہونا پڑتا ہے۔آج میڈیا قوموں کی درست یا غلط سمت میں رہنمائی کا اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس حوالے سے اگر ہم اپنے میڈیا پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ سرے سے ہمارا کوئی قومی ٹارگٹ ہی نہیں، اگر کچھ ہے تو سیاسی مخالفین پر الزامات اور جوابی الزامات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو 72 سالوں سے بڑی پابندی سے چل رہا ہے۔ اس پریکٹس سے عوام کو مایوسی اور ذہنی انتشار کے علاوہ کچھ نہیں مل رہا ہے۔
ہمارے میڈیا کا 90 فیصد وقت اسی نان سینس پریکٹس میں گزر رہا ہے اور بے چارے عوام ایک سخت ذہنی انتشار کا شکار ہیں۔ ابھی ابھی ہم کسی حد تک کرپشن مہم سے فارغ ہوئے ہیں ورنہ پندرہ ماہ سے کرپشن مہم میں اس قدر مصروف تھے کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہمارا قومی بیانیہ ’’اشرافیائی کرپشن‘‘ ہو کر رہ گیا ہے۔ ادھر ہمارے مڈل کلاسر وزیر اعظم سڑکوں اور بازاروں میں استعمال ہونے والے جملے ’’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘ کا ورد کرنے میں مصروف تھے جب کہ وہ جن کو نہیں چھوڑوں گا کہتے تھے وہ سب چھوٹ کر ملک کے اندر اور ملک کے باہر لگژری لائف انجوائے کر رہے تھے۔
ہم نے عرض کیا تھا کہ ہر قوم کا ایک فکری بیانیہ یا گائیڈ لائن ہوتی ہے جس کو وہ پوری تندہی سے فالو کرتی ہے۔ لیکن ہماری قومی بدبختی یہ ہے کہ سیاست اور اقتدار ایسے محترمین کے ہاتھوں میں ہے جو قومی بیانیے سے بس اتنے واقف ہیں جتنا ایک نائی استرے سے واقف ہوتا ہے۔ جب صورتحال یہ ہو تو ایسے ملک وقوم کا کیا حشر ہو سکتا ہے؟ وہ ہمارے سامنے ہے۔ اسے ہم اپنی اجتماعی بدقسمتی کہیں یا قومی المیہ کہ 72 سالوں سے ہم ایسے صحراؤں میں بھٹک رہے ہیں جہاں عقل دانش جیسی چیزیں سرے سے وجود ہی نہیں رکھتیں۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں عقل ودانش کے نام سے واقف ہی نہیں بس ایک ہلا گلا ہے اور اشرافیہ کی خر مستیاں ہیں جو بدقسمتی سے ہمارا قومی سرمایہ بن گئی ہیں۔
موجودہ دور میڈیا کا دور ہے، ہم منٹوں میں گھر بیٹھے ساری دنیا کے حالات سے واقف ہو جاتے ہیں۔ میڈیا کی ترقی کا یہ ایک کارنامہ ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں مل سکتی۔ لیکن میڈیا ساری دنیا خاص طور پر ترقی یافتہ دنیا میں نیوز کے ساتھ ’’ویوز‘‘ کو بھی ساتھ لے کر چلتا ہے کہ عوام دنیا کے حالات سے باخبر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی اور اپنی قوم کی زندگی کی ضرورتوں سے بھی واقف ہوسکیں۔ لیکن ہمارے میڈیا کا سارا وقت اشرافیہ کے گرد گھومنے والی خبروں سے بھرا رہتا ہے۔ رہا ’’ویوز‘‘ کا مسئلہ تو ہماری اشرافیہ اس حوالے سے پوری طرح فارغ البال ہے۔
ہم نے ابتدا میں عرض کیا تھا کہ دنیا کے ملکوں کا ایک قومی بیانیہ ہوتا ہے جس کی حیثیت ایک محور کی سی ہوتی ہے جس کے گرد ملک و قوم گردش کرتے رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم قومی بیانیہ جیسی کسی چیز سے واقف ہی نہیں بس ہماری سیاسی اشرافیہ کے ارشادات ہی ہمارا قومی بیانیہ بن گئے ہیں۔ ہم اس سیاسی کھڈے سے ابھی باہر نہیں نکل سکے تھے کہ ہمارے مولوی صاحبان اپنے نامعلوم قومی بیانیے کے ساتھ سیاست کے میدان میں باضابطہ چھلانگ لگا کر آگئے ہیں، یوں ہماری سیاست ایک ایسی کھچڑی بن گئی ہے جس کی لذت صرف دور سے دیکھ کر ہی فارغ ہو جاتے ہیں۔ہم نے کہا تھا کہ آج کا دور جدید علوم اور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے اور وہی قومیں آج زندگی کی دوڑ میں ترقی یافتہ دنیا کا ساتھ دے سکتی ہیں جو جدید علوم اور سائنس و ٹیکنالوجی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں اور اس حوالے سے ہمارا حال یہ ہے کہ حال حال تک ہمارے طالب علم امتحان گاہوں میں ایک جیب میں امتحانی نوٹس اور ایک جیب میں ریوالور لے کر آتے تھے اور بے چارے انویجیلیٹر ہاتھ جوڑ کر آنکھیں بند کرکے جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو کا ورد کرتے تھے۔ اب صورتحال روبہ اصلاح ہے اب طلبا ایک جیب میں نوٹس دوسری جیب میں نوٹ لے کر آتے ہیں اور اچھے درجوں میں پاس ہوکر نام کماتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ملک کا مستقبل نوجوان نسل کے ہاتھوں میں ہوتا ہے لیکن جس ملک کی نوجوان نسل گٹکا کھاتی ہو اور شیشہ پیتی ہو اس کے مستقبل کے بارے میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں رہتی۔ ہماری انتظامیہ اور عدلیہ یعنی قانون اور انصاف آئے دن قانون کا النگھن کرنے والوں کو وارننگ دیتی رہتی ہے لیکن قانون کے دشمنوں کے کانوں میں بے حسی اور ’’بے جگری‘‘ کی ایسی روئی ٹھنسی ہوئی ہوتی ہے کہ کسی کی وارننگ انھیں سنائی نہیں دیتی، یہ صورتحال جہاں ہو وہاں سے علم و عمل دم دبا کر بھاگ جاتے ہیں، صرف کتابوں کی دھول رہ جاتی ہے۔جن ملکوں میں اہل علم اور اہل فکر فعال رہتے ہیں، ان ملکوں میں علم و عمل ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ترقی کی منزلیں طے کرتے ہیں جیساکہ ہم نے عرض کیا۔ ہمارا ملک اس حوالے سے ابھی تک پتھر کے دور میں کھڑا نظر آتا ہے۔ آج الیکٹرانک میڈیا نے زندگی کو بہتر بنانے ملک و قوم کا مستقبل سنوارنے کی اتنی صلاحیت حاصل کرلی ہے کہ ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن ہمارا الیکٹرانک میڈیا اپنے وقت کا 90 فیصد حصہ سیاستدانوں کو دیتا ہے، بے چارے اہل علم اہل فکر اور اہل دانش کی آنکھیں بھیگی رہتی ہیں، دل بوجھل ہوتے ہیں کہ انھیں جہاں ہونا چاہیے وہاں ایک دوسرے پر الزامات لگانے والے بیٹھے ہوئے ہیں اور قوم رو رہی ہے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔