تحریر: ڈاکٹر مجاہدمنصوری۔۔
کرنٹ افیئرز (حالاتِ حاضرہ) میں کچھ ایسے موضوعات بھی آجاتے ہیں جو نمایاں ہو کر فالو اَپ میں جاکر زیر بحث رہنے کا مکمل استحقاق رکھتے ہیں لیکن میڈیا انہیں بوجوہ مطلوب درجے پر ایڈریس نہیں کرتا۔ عوامی زندگی کے کئی شعبے اپنی تشویشناک حالت کے باوجود عوام الناس کے مفادات میڈیا کی مسلسل توجہ کے مستحق ہوتے ہیں، لیکن میڈیا کیلئے وہ مطلوب درجے پر رپورٹ ایبل نہیں ہوتے۔ میڈیا کی اپنی اجتماعی مصلحتیں یا مشترکہ مجبوریاں بھی کرنٹ افیئرز کے کئی اہم موضوعات کو وہ جگہ اور وقت نہیں لینے دیتیں۔ یوں معاشرتی مفادات کے کتنے ہی موضوعات کرنٹ افیئرز کے زمرے میں آنے کے باوجود میڈیا کی جانب سے بری طرح نظر انداز ہوتے ہیں۔
مین اسٹریم میڈیا کے تمام اسٹیک ہولڈرز پر یہ واضح ہونا چاہئے اور وہ خود بھی یہ ذہن نشین کرلیں کہ مین اسٹریم میڈیا کی لائف لائن مختلف النوع اشتہارات ہی ہیں۔ سو ان پر پیر رکھ کر دبانا قومی جرم ہے۔ اخبارات کی سرکولیشن سے ہونے والی آمدن تو اشتہارات کی آمدن کے مقابلے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ اخبارات کی سرکولیشن اور ٹی وی، ریڈیو چینلز کے ویور اور سنسر شپ بڑھنے سے اشتہارات سے ہونے والی آمدن‘ اخباری آمدن میں اضافے کا لازمہ ہے، لیکن سرکولیشن، ویور شپ اور سنسر شپ میں اضافہ بھی پیسے ہی کا کھیل ہے۔ ایسے میں میڈیا کارپوریٹ سیکٹر اور حکومتوں دونوں کا محتاج ہوجاتا ہے، ہر دو اسٹیک ہولڈرز اس کا فائدہ اٹھا کر میڈیا کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے یا اس کے ایجنڈے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور میڈیا اس سے کسی حد تک متاثر بھی ہوتا ہے۔ یہ معاملہ کوئی پاکستان یا ایسی ہی ترقی پذیر جمہوریتوں کے میڈیا تک محدود نہیں بلکہ عالمی میڈیا ہمارے میڈیا کی ہی طرح کارپوریٹ سیکٹر اور حکومتوں سے متاثر ہوتا ہے، اتنا کہ بہت سی معاشرتی ضرورتیں جنہیں پورا کرنے میں میڈیا معاون ہوتا ہے، نظر انداز اور کبھی تو بری طرح نظر انداز ہو جاتی ہیں۔ اس کی تازہ ترین دو بڑی کیس اسٹڈیز امریکہ اور بھارت کے آخری عام انتخابات کی مہمات ہیں جن میں سیاسی طاقتیں کارپوریٹ سیکٹر کے تعاون سے ہر دو جمہوریتوں پر اتنی اثر انداز ہوئیں کہ امریکہ اور بھارت دونوں میں ایسی سیاسی قوتیں برسر اقتدار آئیں کہ ان کا جدید تاریخ کے حوالے سے سیاسی نظریاتی تشخص ’’سیکولر جمہوریت‘‘ بری طرح متاثر ہوا۔ امریکہ صدر ٹرمپ کی صدارت میں ابراہم لنکن کا امریکہ ہے نہ بھارت مودی جیسے مذہبی انتہا پسند کی قیادت میں بھارتی آئین کی روح کے مطابق سیکولر جمہوریہ رہا۔ ڈاکٹر ایمبیڈ کرکے بنائے اسمارٹ انڈین کانسٹیٹیوشن کے برعکس بھارت سیکولر سے ہندو بنیاد پرستوں کے غلبے کی ریاست میں تبدیل ہوگیا کہ بھارتی قوم سے’’ہندو توا‘‘ کا اینٹی سیکولر نعرہ میڈیا کی سیاسی معاونت سے منوا لیا، اس کے برعکس پاکستانی میڈیا نے ’’تبدیلی‘‘ کا۔ ’’تھیوری آف پولیٹیکل اکانومی آف میڈیا‘‘ کے پاکستانی میڈیا پر اثرات اور اس کے کچھ متنازع نتائج آج پاکستان کے کرنٹ افیئرز کا موضوع یوں بن گئے کہ پاکستان میں میڈیا کے جزواً کارپوریٹ سیکٹر اور اسٹیٹس کو کی منتخب حکومتوں کے باہمی ملاپ سے حکومت اور میڈیا کے درمیان مطلوب تعلقات کو متاثر کرتے خلا کی اک ایسی صورت بھی پیدا ہو گئی ہے جس سے نئی منتخب حکومت میڈیا کی مطلوب معاونت اور میڈیا انڈسٹری حکومت کی مطلوب سہولت کاری سے یکدم و یکسر محروم ہوگئی جس سے دونوں‘ حکومت اور میڈیا انڈسٹری کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ تب ہوا جب پاکستانی میڈیا اپنے فروغ اور کردار کے حوالے سے عروج پر آگیا، حکومت اور کارپوریٹ سیکٹر کا بینی فشری ہونے کے باوجود اپنے عوام پر اعتماد (Credibility)پر بھی محتاط ہوگیا، سو اس کی قابلِ تحسین پیشہ ورانہ ذمہ داری سے تبدیلی کے ایجنڈے کو ’’عوام کی ضرورت اور تمنا‘‘ سمجھتے ہوئے اسے بھی اپنے ایجنڈے میں وہ جگہ دینی پڑی جو اسے پہلے کبھی نہ ملی تھی۔ امر واقع یہ ہے کہ میڈیا نے ملک میں جمہوری عمل کے اس حساس مرحلے میں آئین و قانون کی بالادستی، گڈ گورننس، عدلیہ کی آزادی، احتساب، اینٹی کرپشن، بلدیاتی نظام اور اصل آئین کی بحالی، قومی اداروں اور سوشل سیکٹر کی زبوں حالی کی نشاندہی کو اپنے جاری و ساری پیشہ ورانہ ایجنڈے میں بھرپور جگہ دی۔ یہ درست ہے کہ ایک حد تک یہ ملک میں تیسری ظہور پذیر قومی پارلیمانی قوت کے دبائو کا بھی نتیجہ تھا لیکن بحیثیت مجموعی میڈیا کے ایجنڈے میں کرنٹ افیئرز کے ان نئے موضوعات کو معمول سے کہیں زیادہ جگہ اور وقت ملنے کا کریڈٹ تنہا اس سیاسی ابلاغ کو ہی نہیں جاتا، اس کو قومی ضرورت سمجھتے ہوئے ایک بڑے اعتراف کے ساتھ گزشتہ دس سال میں ملکی میڈیا نے اپنے طور بھی اسے اپنا ایجنڈا بنایا اور یہ سارے مطلوب موضوعات ایسا قومی ایجنڈا بنا کر اسٹیٹس کو کی سیاسی قوتوں کیلئے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے اسے کائونٹر کرنا مشکل و محال ہوگیا، باوجود اس کے کہ اس نے ’’تھیوری آف پولٹیکل اکانومی اف میڈیا‘‘ کو متحرک کرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی اور میڈیا کے تبدیل ایجنڈے کے متوازی میڈیا انڈسٹری کو ٹارگٹ کرکے اسے’’ناجائز آسودگی‘‘ میں غرق کرنے کیلئے قومی خزانے کو بھی استعمال کیا اور کارپوریٹ سیکٹر بھی اس کا ایجنٹ بنا، لیکن نئی عمران حکومت نے اس سارے کھیل کو نہ سمجھا اور وہ کلہاڑی اپنے پیر پر چلانا شروع کر دی جو انہیں میڈیا نے تبدیلی کے ایجنڈے میں اپنے بھرپور تعاون سے عمران خان کے ہاتھ میں دے کر اسٹیٹس کو کی حکومتوں پر چلوائی۔ اسے تو عمران حکومت بھول رہی ہے اور اس کی ابلاغی معاونت کی ٹیم انتہائی بھونڈے انداز میں میڈیا کی اکانومی کے درپے ہو گئی ہے جس سے میڈیا انڈسٹری بری طرح متاثر ہوئی، وزیر اطلاعات نے اس پہلو کو یکسر نظر انداز کردیا کہ خود حکومتِ وقت میڈیا کی کتنی بڑی بینی فشری ہے اور اسے گورننس میں اس کی معاونت کی کتنی ضرورت ہے۔ ’’آئین نو‘‘ میں گزشتہ ہفتے ایم اے او کالج کے سیمینار بعنوان ’’میڈیا کی موجودہ صورتحال، معاشرتی استحکام میں اس کا کردار‘‘ میں خاکسار کے اظہارِ خیال پر مبنی یہ موضوع ابھی ختم ہوتا نظر نہیں آرہا کہ پہلے ہی یہ کرنٹ افیئرز کا حساس موضوع ہونے کے حوالے سے خود میڈیا میں نظر انداز ہو رہا ہے، حالانکہ پوری جرأت سے اسے زیر بحث لانا اور ہر ہر پہلو کا تجزیہ ایک بڑی قومی ضرورت ہے جس کا تیا پانچہ، ادارے، پروفیشنلز اور اونر شپ سے محروم سوشل میڈیا میں ہو رہا ہے۔
نہیں بھولنا چاہئے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا معاون معلم میڈیا اور دیگر ابلاغ ہی قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت اور سرسید احمد خاں کے واضح کئے گئے دو قومی نظریے جیسی دو قوتوں کے بعد تیسری قوت تھی، جس سے ’’پارٹیشن آف انڈیا‘‘ کی اَنہونی ممکن ہوئی اور پاکستان بنا۔ اسی طرح جنگ ستمبر فقط بیٹل فیلڈ کی جنگ ہی نہیں تھی، یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سائیکولوجیکل وار فیئر کا دوسرا بڑا محاذ تھی جو افواجِ پاکستان اور شہریوں نے شانہ بشانہ لڑی۔ اس جنگ میں پاکستانی میڈیا کا کردار تاریخ ساز اور دنیا بھر کیلئے ایک عظیم کیس بنا کہ کسی نیم جمہوری ملک کا میڈیا بھی ملک کی سلامتی میں کتنا اور کیسے کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستانی میڈیا، اسٹیٹس کو کی بیڈ گورننس اور جملہ وجوہات کے باعث جن غیر پیشہ ورانہ خامیوں سے دو چار ہوا، اس پر ہم اپنے اتنے نتیجہ خیز قومی اثاثے سے محروم ہو سکتے ہیں نہ اسے ادھورا کر سکتے ہیں۔ اس کی جلا ناگزیر ہے۔ میڈیا کی ملک میں موجود صورتحال اور اسے کیسے بہتر بنایا جائے، ’’آئینِ نو‘‘ میں یہ اظہارِ خیال و تجزیہ جاری رہے گا۔(بشکریہ جنگ)