تحریر: ڈاکٹر مجاہدمنصوری
مستقبل قریب میں پاکستان کی تابناکی کے جو اشارے مل رہے ہیں،ان میں ایک اہم اشارہ ، قومی موضوعات پر مطلوب مکالمے کے کلچر کا فروغ ہے جس کے بڑے سہولت کار قومی ذرائع ابلاغ ہیں، لیکن پاکستان کا میڈیا کچھ نئی مشکلات میں مبتلا ہو کر اپنے مصائب کے حوالے سے خود موضوع بحث بنتا جا رہا ہے۔ یہ اپنا رونا تو ایک حد میں ہی رو سکتا ہے کہ میڈیا کو اپنے ایجنڈے میں خود ہی کو زیر بحث لانا کوئی بہتر پیشہ ورانہ روش نہیں کہ اس کا مطلوب کردار تو سوسائٹی کو ایڈریس کرنا ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر معاشرے میں جہاں میڈیا، ایک لحاظ سے آزاد اور ووکل بھی ہے، اب بھی کتنے ہی رپورٹ ایبل ایریاز اَن رپورٹڈ ہیں۔یہ بات اپنی جگہ موجود ہے کہ ’’میڈیا کا کردار‘‘ روایتی ہونے کے باوجود ایک رواں دواں موضوع جسے میڈیا کی تیز تر ہوتی روانی اور فروغ و ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے جاری کردار کا تجزیہ خود میڈیا اور اس سے بڑھ کرسوسائٹی (عوام الناس) جو میڈیا کے پیشہ ورانہ کردار کے حوالے سے اس کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہے، دونوں کیلئے بے حد ضروری ہے۔
’’پاکستان میں میڈیا کی موجودہ صورتحال اور معاشرتی استحکام میں اس کا کردار‘‘ اس موضوع کا انتخاب لاہور کے تاریخی ایم اے او کالج کے ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ نے اپنے سالانہ سیمینار میں کیا۔ یوں بھی شعبے کے سربراہ عزیزم عابد تہامی ایک فعال اور سرگرم استاد صحافت ہیں، جنہوں نے اپنی توجہ اور شوق سے شعبے کو متحرک کردیا۔۔
انسانی تہذیب کے آغاز سے آج کے جدید دور تک ایجادات و اختراعات کے ذریعے انسانی زندگی کی جو معجزیاتی ترقی ہوئی اس میں اس کا سب سے بڑا معاون ابلاغ (کمیونیکیشن) رہا۔ نہ رکنے والا یہ عالیشان ارتقائی عمل آج بھی پوری آب و تاب سے جاری و ساری ہے اور تاقیامت رواں دواں رہے گا۔ حتمی حقیقت یہ ہے کہ بطور اشرف المخلوقات، عقل سلیم کے بعد ’’ابلاغی صلاحیت‘‘ ہی دوسرا بڑا شرف انسانی ہے۔ ان دونوں کے ملاپ سے تہذیب ِانسانی کا آگے بڑھتا ہوا عمل تشکیل پاتا ہے۔ ہر دو وصف (عقل سلیم اور ابلاغ) ایک دوسرے کیلئے اپنی صلاحیت کے اظہار کیلئے ناگزیر ہیں۔ ابلاغ سے ابلاغ عامہ تک کا سفر جیسے جیسے تیز تر ہوا، انسانی معاشرے پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہونے سے انسانی معاشرہ شفاف، مستحکم اور آرام دہ اور محفوظ ترین ہوتا گیا۔
آج ابلاغِ عامہ معاشرے پر کس طرح اور کس قدر اثر انداز ہوتا ہے اور ابلاغِ عامہ کا کردار کتنا عظیم و ہمہ گیر ہے، اس کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ 50کے عشرے کے اوائل میں جب کینیڈین سوشل سائنٹسٹ پروفیسر مارشل مکلہن نے میڈیا کی تیز تر ترقی اور فروغ کا نوٹس لیتےہوئے انسانی معاشرے پر اس کے اثرات کا مشاہدہ و مطالعہ کیا تو ان پر مستقبل کے حوالے سے یہ راز افشا ہوا کہ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی کمال ترقی اور اس سے ابلاغ عامہ کی بڑھتی ہوئی اہمیت پوری دنیا کو ایک ’’گلوبل ویلج‘‘ (عالمی گائوں) میں تبدیل کردے گی۔ پروفیسر مکلہن نے صدی کے آخر میں ایسا ہونے کے امکان کا اظہار کیا تو میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسکالرز گلوبل ویلج کے موضوع پر دو مکاتب ِفکر میںتقسیم ہوگئے۔ ایک نے اپنے دلائل کے ساتھ مارشل مکلہن کی Visulization کی تائید کی جبکہ دوسرے مکتب فکر کے میڈیا اسکالرز نے اس سے اختلاف کیا۔ ترقی پذیر دنیا میں کثیر الثقافتی ماحول میں بڑی بڑی ابلاغی مہمات کی ناکامی اس مکتب فکر کے کمیونیکیشن اسکالرز کی تائید کرتی ہیں۔ جیسے ہمارے ہاں 60کے عشرے سے 80کے آخر تک پاپولیشن گروتھ ریٹ روکنے یا کم کرنے کی جتنی جارح اور منظم ابلاغی مہمات ماس میڈیا سے چلیں وہ بری طرح ناکام ہوئیں۔ 90 کے اوائل میں جاکر معمولی تبدیلی آئی، تحقیق نے تصدیق کی کہ معمولی تبدیلی تو ابلاغ سے ہی ہے نہ کہ ابلاغ عامہ سے۔ حقیقت یہ ہے کہ ابلاغ کی ہر دو شکلوں انٹر پرسنل اور ماس کمیونیکیشن دونوں نے اپنا رنگ دکھایا۔ ہوا یہ کہ جب ماس کمیونیکیشن کی اثر پذیری کے بعد ابلاغی مہمات کا رخ ابلاغ عامہ سے فقط ابلاغ (انٹرپرسنل) کی طرف موڑنا چاہیے تھا۔ یہ ا سٹیج80 کے وسط میں آگئی تھی لیکن موجود علم کا اطلاق نہ ہو سکا۔ جب ہوا تو تبدیلی آنے لگی مگر بیڈ گورننس اور اسٹیٹس کو کی سیاست نے بڑھتی آبادی پر قابو پانے والے انٹرپرسنل کمیونیکیشن کی کامیابی کے باوجود اسےسبوتاژ کردیا۔ آج پھر گورننس کو اس کا ہوش نہیں۔
یاد رکھا جائے کہ مارشل مکلہن کے دنیا کے گلوبل ویلج بننے کی Visualization بھی درست ثابت ہوئی۔ گزری صدی کے آخری ربع میں یہ عمل شروع ہوگیا اور تھینک ٹینکس نے 20ویں صدی کےختم ہونے سے 20سال قبل اس صدی کو کمیونیکیشن کی صدی قرار دے دیا اور ساری دنیا میں یہ تسلیم ہوا کیونکہ میڈیا کے عالمی معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہوئے اور اس کی واحدنیت (Oneness) میں اضافہ ہوا اور ہو رہا ہے۔ گائوں کا بڑا امتیاز دیہاتیوں کی بلند درجے پر سوشلائزیشن ہے، جو آج کے عالمی معاشرے میں انٹرنیٹ اور انٹرنیشنل میڈیا سے نیشن اسٹیٹس کے معاشروں کے باہمی رابطوں اور نیٹ اور فونک تعلقات کے باعث عالمی معاشرتی ماحول کو تیزی سے آگے بڑھا رہی ہے۔
علم ابلاغیات کے بانی پروفیسر ولبر شرام نے بھی پرنٹنگ کی ایجاد کو تہذیب انسانی کے ارتقا کا سب سے بڑا سنگ میل قرار دیتے ہوئے اس کی وضاحت یوں کی کہ اگر پوری تہذیب انسانی کی عمر کو گھڑی کے بارہ گھنٹے کے برابر تسلیم کرلیا جائے تو تہذیب انسانی کی کل عمر (12گھنٹے) میں ماس کمیونیکیشن کی بطور علم (اور عمل) کی عمر فقط ایک سکینڈ (یعنی پانچ سو سال) ہے۔ جیسا کہ جرمنی میں پرنٹنگ مشین کی ایجاد 1440 میں ہوئی۔ ولبر شرام کے مطابق اس پانچ سو سال کی ترقی، باقی تہذیب انسانی کی عمر پہ حاوی ہے۔ اس کا سبب وہ انسانی ترقیاتی عمل کو ملنے والی ابلاغ عامہ کی معاونت کو بتاتا ہے، جو مختلف کیسز کے حوالے سے ثابت ہوتی ہے۔(بشکریہ جنگ)۔۔