media ki chaka chond ke pas parda andhero ki kahani

میڈیا کی چکا چوند کے پس پردہ اندھیروں کی کہانی۔۔

تحریر: ملک محمد سلمان۔۔

صحافتی اداروں نے خوب ترقی کی ہے لیکن اس کے باوجود کارکن صحافیوں کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، یہاں صحافی آج بھی عدم تحفظ و معاشی مسائل کا شکار ہیں اور ان کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ مسلسل اضافہ ہی ہوا ہے۔

بد قسمتی سے ہمارے ہاں اکثریت ایسے چینل مالکان کی ہے جن کا نہ تو صحافت سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی صحافیوں کی فلاح وبہبود کی پرواہ۔

میڈیا مالکان کی اکثریت ایسے انڈسٹرلسٹ کی ہے جن کا کاروباری طریقہ ”بنیئے“ والا ہے۔ ان ساہوکاروں نے اپنی فیکٹریوں میں سالہاسال سے ریت اپنا رکھی ہے کہ جیسے ہی کوئی فیکٹری ملازم سنئیر ہوتا ہے اور اس کی تنخواہ لاکھوں میں پہنچتی ہے اس کو فارغ کر دیا جاتا ہے کہ تمہاری سیلری میں تو پانچ ملازم رکھے جاسکتے ہیں۔ یہی استحصالی نظام بلکہ تذلیلی سسٹم میڈیا میں بھی متعارف کروا دیا گیا ہے۔ آغاز میں اپنی پبلسٹی اور ریٹنگ کیلئے سنئیر رپورٹرز اور اینکرز کو ڈبل اور منہ مانگی تنخواہوں پر ہائیر کیا جاتا ہے اور کچھ ہی مہینوں بعد ان کو بغیر نوٹس چھٹی کا پروانہ تھما دیا جاتا ہے۔ ان کی جگہ پر نئے ٹرینی رپورٹرز اور اینکرز کو آن ائیر کردیا جاتا ہے۔ جی ہاں وہی سکیم ایک سنئیر کی تنخواہ میں درجن بھر ٹرینی رکھے جاسکتے ہیں۔ اس سے ملتی جلتی حالت پروڈکشن اور نیوز کنٹرول رومز میں کی جاتی ہے۔ ان تاجروں نے میڈیا ورکرز میں بے یقینی کی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔ ”ڈنگ ٹپاؤ پالیسی“ کے تحت نان پروفیشنل افراد سے سستے داموں کام لیا جاتا ہے۔ بلکہ اب تو معاملات سستے داموں کی بجائے انٹرن شپ کے نام پرمفت خوری کی طرف جارہے ہیں۔ٹی وی چینلز سیاسی پارٹیوں کی حمایت اور مخالفت میں انتہائی جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اشتہارات کی مد میں کروڑوں اور ”چینل پالیسی“ کے مطابق کام کرو ”پلانٹڈ پروگرامات“  کے لفافے بھی ڈائیریکٹ میڈیا مالکان وصول کر رہے ہوتے ہیں جبکہ بدنامی صحافیوں کا مقدر۔ ساٹھ ساٹھ صفحے کے اشتہارات لینے والے اخبارات اور کروڑوں روپے کی ایڈورٹائزمنٹ چلانے والے ٹی وی چینلز اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم بھی صحافتی ورکروں کی ڈاؤن سائزنگ اور تنخواہیں ہڑپنے میں لگے ہوئے ہیں۔

انٹرنشپ کی آڑ میں مہینوں بلکہ سال بھر مفت کام کروایا جاتا ہے۔میڈیا ورکر دنیا کی واحد مخلوق ہے جو خوشی خوشی مفت کی لیبر بن جاتے ہیں۔ مختلف شہروں میں مقرر کیے گئے رپورٹرز کو تنخواہ دینا تو درکنار الٹا سکیورٹی اور نمائندگی فیس کے نام پر ہزاروں روپے ہتھیائے جاتے ہیں۔

لاہور، اسلام آباد، کراچی جیسے بڑے پریس کلب کو چاہیے کہ اس استحصالی کلچر کے خاتمے کیلئے بھرپور کردار ادا کرے کیوں کہ اس کام میں تاخیر کے نتیجے میں ہر ایرا غیرا نتھو خیرا بزنس مین چینلز بنائے گا اور ”ہماری جوتیاں ہمارے سر“ کے مصداق صحافیوں کو اپنی مرضی کے مطابق ہانکتا پھرے گا اوراپنی ”بلیک منی“ کو وائٹ بھی کرے گا جبکہ میڈیا ورکرز تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر خودسوزیوں پر مجبور ہوں گے۔میڈیا ورکرز  کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں اور استحصالی سسٹم پر پردہ ڈالنے اور ورکرز کی آواز کو دبانے کیلئے سو کالڈ سنئیرز کو پرکشش تنخواہ اور بھاری مراعات پر صرف اس لیے رکھا جاتا ہے کہ ان کا کام چینلز کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانا اور مالکان کو کو شیلٹر فراہم کرنا ہے۔ میڈیا ہائوسز میں اہم عہدوں پر بیٹھے میڈیا ہاؤسز کی دلالی کرنے والے چینلز کے کرتا دھرتا سوکالڈ سنئیرز ہرگز صحافی کہلانے کے حقدار نہیں بلکہ یہ صحافت کے نام پر کلنک کا داغ ہیں۔

چینل مالکان کے یہ فرنٹ مین ڈھیروں دولت کما رہے ہیں بلکہ اِنہیں ”مَن مانی“ (ہر طرح کی خواہشات) پوری کرنے کی کھلی چھوٹ بھی ہے۔(ملک محمد سلمان)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں