تحریر: ناصرجمال۔۔
ایسا بدلا ہوں تیرے شہر کا پانی پی کر
جھوٹ بولوں تو ندامت نہیں ہوتی مجھ کو
وزیراعظم توشہ خانہ سے’’ پسِ چلمن‘‘ عجیب بہکی ، بہکی، باتیں کررہے ہیں۔ لگتاہے، بات نو،لکیروں اور نو، رتنوں سے آگے چلی گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ’’خاتون اول‘‘ نے بھی انہیں، یاد کروانا چھوڑ دیا ہے۔ گندم امپورٹ کا جواز ’’آبادی‘‘ میں اضافے کو قرار دیتے ہوئے، مسلسل ’’اسلامی گیئر‘‘ سے پائوں ہٹانے کا نام نہیں لے رہے۔ دوسری جانب پوری تحریک انصاف، توشہ خانہ کے ایشو پر میڈیا اور سوشل میڈیا پر ’’جوت‘‘ کھا رہی ہے۔ حیرت انگیز طور، وہ اس پر شرمندہ بھی نہیں ہورہی۔ ویسے بڑا ہی حوصلہ ہے۔ مجھے تو صداقت عباسی پر ترس آرہا تھا۔ انھیں نواز شریف کے توشہ خانہ والے خط کے پیچھے چھپنے پر کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہورہی تھی۔ پنڈی اور حکومت کے بعد حکومت کا ، (ن) لیگ کے ساتھ ’’ایک پیج‘‘ پر ہونا، قُرب قیامت کے ہی آثار ہیں۔ ایسے میں توشہ خانہ پر مریم نواز کی تنقید کے بعد تو ہنسی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ انھیں اپنے کئے پرشرمندگی نہیں ہے۔ ہاں اُسی واردات میں خان کے پکڑے جانے پر کمال خوشی ہے۔ ویسے کون لوگ ہو تم۔ اور تمہارے مشیر کون ہیں۔ امریکہ پدھار جانے والے، گریڈ اکیس کے ایک آفیسر نے مجھے کہا کہ ’’توشہ خانہ ‘‘ والی بات، عمران خان کے حوالے سے میں، ماننے کو تیار نہیں ہوں۔ میری ہنسی نکل گئی۔ انھیں کہا کہ لگتا ہے، آپ کا تعلق بھی تحریک انصاف کے ’’فرقے‘‘ سے ہے۔ اب تو سب ریکارڈ پر ہے۔ یہ پڑھے لکھے بابوئوں کا امریکہ میں بیٹھے ہوئے حال ہے۔ ویسے تحریک انصاف والے سچے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کو ویسے ہی ، ووٹ کا حق، نہیں دینے چلے۔ انھیں بنے بنائے گھڑے گھڑائے 27لاکھ بے وقوف میسر ہونگے۔ (سید سعود ساحر مرحوم نے آصف علی زرداری کو کہا کہ آپ نہایت خوش قسمت انسان ہیں کہ آپ کو ڈھائی کروڑ جیالے اور سالے جہیز میں ملے ہیں)خان صاحب، نے تو یہاں کے پڑھے لکھے اور ’’تربیت یافتہ‘‘ کو بے وقوف بنا لیا۔ یہ اوورسیز کیا بیچتے ہیں۔
بہر حال،’’توشہ خانہ‘‘ کے معاملے پر، یہ آخر رسوا ہورہے ہیں۔ کمال ہے جو ایک شکن بھی چہرے یا عزم پر آئی ہو۔ اللہ معاف کرے۔ ابھی بھی سیرت طیبہؐ کے حوالے جاری ہیں۔ آنیوالی نسلوں کی بات کررہے ہیں۔ پتا نہیں، انھیں کہاں دفن کرنے کا ارادہ ہے۔ فی الحال دو نسلوں کو تو زندہ درگور کردیا ہے۔ ایف۔ آئی۔ اے۔ کے چند سیٹوں کیلئے 12لاکھ درخواستیں آئی ہیں۔ یہاں وزراء روزانہ روزگار کا بول ہالا بلند کر رہے ہوتے ہیں۔
گذشتہ روز سابق بیورو کریٹ اور 78سالہ بزرگ نے کہا کہ ’’توشہ خانہ اسکینڈل‘‘ بے شرمی اور ڈھٹائی کی انتہا ہے۔ اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا ہے۔ آپ تحائف کی تفصیلات بھی دیں اور 50فیصد جمع کروائی گئی رقم کا بھی بتائیں۔ اس کے بعد جائیں اور اخلاقیات کے چُلو بھر پانی میں ڈوب مریں۔
ہمارے بڑوں کا کردار’’وہ خاکی ہوں کہ شیروانی والے، قلم والے ہوں کے قلم توڑنے والے، خبروں پر دھاڑنے والے ہوں کہ ٹائی سوٹ کے ساتھ گلے پھاڑنے والے‘‘ آج سب کے سامنے ہے۔ ویسے اخلاقیات کا جنازہ تو ’’چُومی‘‘ اسکینڈل میں ہی نکل گیا تھا۔ چھوڑیں کس بحث میں پڑ گئے۔ یہاں ہر طاقتور قانون اور انصاف سے مُبرا ہے۔ پھنداصرف کمزوروں کیلئے ہے۔ یہ ملک بنا ہی، رزاق دائودوں، ملک ریاضوں اور کیانیوں کیلئے ہے۔22کروڑ واقعی اس میں ’’خوامخواہ‘‘ ہیں۔
قارئین!!!
مجھے ڈر لگتا ہے۔ پاکستانیوں کےحالات، افغانستان نہیں، فلسطین والے نہ ہوجائیں۔ جس کا دل چاہے گا، ہمیں لاوارثوں کی طرح مارے گا۔ ہم اُن سے پوچھیں گے، ہمارا قصور تو بتائو، وہ کہیں گے’’اور لو توسیع، اور بنائو نیا پاکستان، اور بنائو میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی، اور بنائو چھوٹی اور متحرک کابینہ، اور اپنے عوام پر اعتبارنہ کرو، اور خرچ کرو تمام وسائل ، اپنے خانوں، شریفوں اور زرداریوں اور حواریوں پر، اور کھائو بریانیاں اور بنائو برادریاں، اور کرو، خود کونسلی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم۔
خاموش رہو۔ آرام سے جوتے کھائو۔ اپنے سے بھی کھاتے تھے۔ اب ہم سے بھی کھائو۔ جب اس وقت کوئی شور اور سوال نہیں تھا تو اب کیوںہے۔
قارئین!!!
مملوک، ایوبی، سلجوق، عثمانی، مغل، سب تباہ ہوگئے۔ جس نے اپنے پائوں خود کاٹے، قدرت نے اُسے مکمل کاٹ ڈالا۔ کیا آپ موسیٰ کے بنی اسرائیل ہو کہ آپ کے طویل عرصہ تک بے جا نخرے اٹھائے جائیں۔ پھر کیا ہوا۔ آخر ایک دن رسی کھینچ جاتی ہے۔ وہ زمانہ بہت سُست تھا۔ اب بہت تیز ہے۔
سپر پاور، بلکہ شکست خوردہ سپر پاور، زخمی ہے۔ اس کی شکست کے اسباب بے شمار ہیں۔ یہ ایک طویل بحث ہے۔ طالبان یا پاکستان، چین یا روس، خودکو تنہا ، فاتح نہیں کہہ سکتے۔ وقت ، تاریخ اور حالات کا ایک جبر تھا۔ مجبوریاں تھیں۔ کبھی فریق روس کے خلاف اکھٹے تھے۔ پھر امریکہ کے خلاف ہونا پڑا۔ امریکہ زخمی ریچھ ہے۔ وہ انڈیا جیسے گیدڑوں پر مکمل ہاتھ رکھے گا۔ پرتھوی 5کے تجربے کی ٹائمنگ ایسے تو نہیں ہے۔ امریکی میزائل چل رہے ہیں۔ اپنے تو،اُڑنے سے پہلے ہی گرجاتے ہیں۔ صرف کرکٹ نہیں، معاشی گھیرائو کیا جائے گا۔
مگر آپ کیا کررہے ہیں۔ میڈیا کو برباد کرنے کے درپے ہیں۔ عام آدمی کی سانس لینا تک دشوار کردی ہے۔سیٹھوں اور فنانسروں کو پہلے سے زیادہ امیر کردیا ہے۔ پاکستانی کرنسی، روز ڈالر کے سامنے مُجرا کرتی ہے۔ سب کچھ پیش کرتی ہے۔ اپنے ریٹ شرمناک حد تک گرا لئے ہیں۔ مگر، باز آنیوالے باز نہیں آرہے۔ بھاری ایکسپورٹ کے خواب دکھانے والے کہاں ہیں۔ گیس اور بجلی کی مد میں قوم کے ڈیڑھ کھرب کے قریب الگ سے لے اڑے ہیں۔ ایکسپورٹ اورنٹیڈ انڈسٹری کی نئی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ اپٹما اور اس کے دیگر ساتھی سیٹھوں نے دوسری مراعات الگ سے لی ہیں۔ قوم کو کیا ملا ہے،بھوک، مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی، بے سکونی،خود کشیاں اور بے یقینی، کیا یہ سب سچ نہیں ہے ۔
ایک توسیع اور ایک اور متوقع تقرری، اس کے علاوہ تو ذلالت ہی ملی ہے۔لوگوں کے بجٹ برباد ہوگئے ہیں۔ بھکاریوں کی تعداد اور ڈرامے کئی گنا ہوگئے۔ ’’ادھار کا جن ‘‘شریف لوگوں کو عنقریب برباد کرے گا۔ کرپشن کے ریٹ کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ اب تو پوسٹنگز بھی بکتی ہیں۔اور جن لوگوں پر پوسٹنگز بیچنے کے الزامات ہیں اُن کو پنجاب سے وفاق لاکر داماد جی کا درجہ دیا گیا ہے۔ بربادیاں رقص کررہی ہیں۔ طاقتور ویرانیوں کے رقص کو محفل سمجھ رہے ہیں۔
’’توشہ خانہ‘‘ پر حکومت اور اس کے کرتا دھرتائوں کے موقف نے اس سند پر مہر ثبت کردی ہے کہ ’’جو لوٹ سکتے ہو لوٹ لو۔‘‘
اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آنکھیں بند کرنے کی اداکاری جاری رکھو اور واردات ڈالتے رہو۔ (ناصرجمال)۔۔