media ki barbaadi ka khamyaaza

میڈیا کی بربادی کا خمیازہ۔۔

تحریر: ناصر جمال۔۔

طویل غیر حاضری کی وجہ، پسپائی نہیں،  شدید غُصہ ہے۔ اشتعال میں لکھنا نہیں چاہتا تھا۔ سیاہ رات کے عروج پر نہیں گھبرائے اور ڈرے۔اب تو رات کا جبر خاتمے پر ہے۔ پھر کیا گھبرانا اور کیسا ڈرنا۔۔۔۔؟بزرگوار، انجم مرزا نے گزشتہ روز طویل غیر حاضری پر قلم کار کو لکھ بھیجا کہ’’اگر آپ بھی اکتا گئے ہیں اور ملک کے مستقبل کے حوالے سے مایوس ہیں تو پھر پیچھے کیا بچتا ہے۔۔۔۔؟قلم کار کو یہ جُملے کھائے جارہے تھے۔ کئی دنوں سے قلم اٹھاتا، پھر رکھ دیتا تھا۔ پھر عزیزی عاطف شیرازی، مسلسل تنگ کرتا رہتا ہے۔ میں سطحی لکھنا نہیں چاہتا تھا۔ اس سے مسلسل بچتا آیا ہوں۔ بھرتی کا کبھی لکھا نہیں ہے۔ منٹو اور تنویر عباس نقوی نے یہ تربیت ہی نہیں کی۔ فلاں نے فلاں کو یہ کہہ دیا۔ یہ کونسی صحافت ہے۔ سیاسی ڈرامہ بازی کو صحافت کا درجہ دینے والے ہی، آج، ریاست، سیاست اور صحافت کو برباد کرنے کے ذمہ دار ہیں۔

قارئین،بات کُھلی اور واضح ہونی چاہئے۔ کوئی کنفیوژن ہے ہی نہیں۔ کنٹرول صحافت سے بے ضرر صحافت کا فاصلہ ہم نے بطور ،ریاست، معاشرہ اور صحافت، ناقابل یقین تیزی سے طے کیا ہے۔ ریاست کے مامے، چاچے، تائے، سیٹھ اور صحافتی بونے آج اُوندھے مُنہ پڑے ہیں۔مثبت صحافت کے آئی۔ ایس۔ پی۔ آر کے نابغہ روزگار آئیڈیا نے وہ کامیابیاں سمیٹی ہیں کہ اب شُنید ہے کہ آئی۔ ایس۔ پی۔ آر۔خود بھی سٹپٹا گیا ہے۔ ہائبرڈ صحافی، مالکان اور اہل صحافت  مگر پھر بھی نہیں تھکے۔ابھی بھی تروتازہ ہیں۔ وہ مزید راتب مزید ایجنڈے اور فیڈنگ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس عظیم ٹارگٹ کے حصول میں عمران خان، میاں صاحبان اور قبلہ آصف زرداری کو کریڈٹ نہ دینا ظُلم ہوگا۔

صحافیوں کی اکثریت نے اپنے ضمیر، لنڈے کے ضمیروں کی طرح، ’’پٹھانوں‘‘ کے قالینوں والے ریٹ سے بھی سستے بیچے ہیں۔ رہ گئے سیٹھ، ان کا تو اول دن سے یہی کام ہے۔ انھوں نے کب اور کس دور میں اپنی اچھی قیمت وصول نہیں کی۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اب اینکرز صحافی بھی کروڑ اور ارب پتی ہوگئےہیں۔ اب تو انھیں بچوں کی شادیوں میں بھی کروڑوں کی سلامیاں ملتی ہیں۔ رقم، وائٹ کرنا تو اب کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ کئی ایک تو چھوٹے، ملک ریاض، علیم خان بھی بن گئے ہیں۔ مفادات اتنےزیادہ ہوگئے ہیں کہ ’’ضمیر جی‘‘ اور قلم جی‘‘ دفن کر دیئے گئے ہیں۔

قلم کار پہلے بھی کہتا رہا کہ ’’ایک دن آئے گا، جب یہاں کوئی بھی سچ اور جھوٹ میں تمیز نہیں کرسکے گا۔‘‘ ایک وقت آئے گا۔یہاں اتنا بدترین بحران پیدا ہوگا کہ ریاست کو سچی آوازوں کی ضرورت ہوگی۔ ملک میں کوئی ایسی آواز ہی دستیاب نہیں ہوگی۔ ایسی تمام آوازیں برباد کرکے دفن کی جاچکی ہونگی۔ کچھ آوازیں خود سوزی کرچکی ہونگی۔ باقی آوازیں صالح ظافر، حنیف خالد، سلیم صافی، انصار عباسیوں، قیوم صدیقیوں، طلعت حسینوں، عامر الیاس رانوں، حاجی نواز رضائوں، افضل بٹوں کی ہونگی۔ ایسا نہیں ہےکہ میڈیا میں اور مثالیں نہیں ہیں۔ پورا ملک اور ہر صوبہ اس میں خودکفیل ہے۔

مزاحمتی آوازیں تو اب شاید، انگلیوں پر ہی گنی جاسکتیں ہیں۔سیاسی، عسکری، بابوئوں اورسیٹھوں پر مشتمل اشرافیہ کو مبارک ہو۔ایک صحافی دوست بتا رہے تھے کہ پنڈی شریف نے پارلیمنٹ کور کرنے والے، کچھ دوستوں کو ’’طلب‘‘ کیا تھا۔پنڈی کے شریف گلہ کرتے پائے گئے کہ، اُن کے ’’انکوبیٹر‘‘ میں زندگی اور ترقی پانے والوں نے، اُنہی کو نشانے پر رکھ لیا۔ اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لئے، وہ کچھ بھی کردیتے ہیں۔ پنڈی کے شریف، صفائیاں دیتے رہے اور عہد کرتے دکھائی دیئے، کہ اب وہ ماضی کی لےپالک اولاد کو ’’راندہ درگاہ‘‘ کرتے ہیں۔قلم کار نے یہ سُنا تو، ایک عرصہ کے بعد ،زندگی سے بھرپور قہقہہ لگایا۔ ”پنڈی شریف“ والوں کو سمجھنا ہوگا۔ جب تک ’’کاکول‘‘ قوم شریف سے وفا نہیں کرے گا۔ ریاست اور آئین کو مقتدم نہیں مانے گا۔ یہ بے وفائی کا سرکل ایسے ہی قائم رہے گا۔پہلے اپ کو حلف کی پاسداری کرنا ہوگی۔وگرنہ یہی نتائج آئیں گے۔ ریاست، سیاست، صحافت اور نظام کا قبضہ چھوڑنا ہوگا۔

انھیں، چلنے دیں، گرنے کے ڈر سے نجات پانا ہوگی۔ آپ نے 77 سال من مانیاں کرکے دیکھ لیں۔ سب اپنے گریبان میں جھانکیں، سب کو معلوم ہے کہ آپ پھنس نہیں چکے، بلکہ تیزی سے دھنس رہے ہیں۔ آگے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔میڈیا کبھی واچ ڈاگ ہوا کرتا تھا۔ اب اسٹیبلشمنٹ کے کوہلو کا بیل ہے۔ جس کی آنکھوں پر، اشتہارات، مراعات، غلامی، ڈر، خوف کے کھوپے چڑھے ہوئے ہیں۔اس نے اس قوم کو اب کیا راستہ دکھانا ہے۔وہ اپنے سروائیول نہیں اپنی اپنی ذات کی جنگ لڑ رہا ہے۔میں ایک اور چیز واضح کرنا چاہتا ہوں کہ، عمران ریاض سے لیکر اسد طور اور ان جیسے بے شمار دوسرے، نہ صحافی تھے اور نہ  ہیں اور نہ ہی ان کا صحافت سے کوئی لینادینا ہے۔جیسے حفیظ اللہ نیازی کا صحافت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔اگر کوئی ہارون رشید یا میر شکیل الرحمن کے حرم میں پرورش پاتا ہے تو وہ صحافی نہیں بن جاتا۔ یوٹیوبرز، سوشل میڈیا انفلونسرز کی غالب ترین اکثریت فراڈ ہے۔ریٹنگ کے چکر میں ذاتی خیالات، کو خبر بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔پروفیشنل ازم انھیں چھو کر نہیں گزرا۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر 99 فیصد کچرا بکھرا پڑا ہے۔ ہے کوئی پلیٹ فارم جہاں پر اس کچرے کو نتھارا جا سکے۔ انفارمیشن کے نام پر ڈس انفارمیشن، ایجنڈے اور بیانیے ہیں۔ 2006ء کے بعد سے، شعبہ صحافت کو بطور خاص ٹارگٹ کرکے تباہ کیا گیا ہے۔ اب صحافیوں کو بلا کر ’’ٹسوے بہانے‘‘ سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

معاشرے کے کنویں سے بدنیتی کا کُتا نکالنا ہوگا۔ چالیس یا چار لاکھ بالٹی پانی نکالنے سے بھی کچھ نہیں ہوگا۔گھر تک اصولوں، ضابطوں اور اخلاقیات پر چلتے ہیں۔ آپ ڈنڈوں، انڈوں، اور ایجنڈوں سے ملک چلانے نکلے ہیں۔ جھوٹ، فریب، مکاری سے معاشرے کو بدلنے چلے ہیں۔یہ فارمولہ، اپنے بدترین نتائج، انڈے اور بچے دے چکا ہے۔ اس کو مزید چلا کر دیکھ لیں۔ آپ کو آگے بھی یہی کچھ ملنا ہے۔ اگر ریاست، معاشرے اور لوگوں کو آزادی، خود مختاری اور ترقی کی جانب لیکر جانا ہے تو، سرینڈر کردیں۔ وگرنہ سب مکمل تباہی کی طرف بڑھتےرہیں۔ جو اب، زیادہ دُور نہیں ہے۔

ریاست پر بُرا وقت آیا ہے تو، معاشرے کو شاید ایک بھی معتبر آواز دستیاب نہیں۔آپ تقاریب میں جتنی چاہیں قرانی آیتیں پڑھیں۔جو چاہے،من چاہی تشریح کرلیں۔لوگوں کو بلا کر ان کے سروں پر ہاتھ رکھیں یا پچکاریں۔ ہر سانس کے ساتھ جتنے چاہے ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات کریں۔ معیشت کو لفاظی سے آسمان پر پہنچا دیں۔سٹاک ایکسچینج 72 ہزار نہیں ایک لاکھ 72 ہزار پر لے جائیں۔جتنے چاہے خدائی دعوے کر لیں۔آپ کے اعداد و شمار اور بیانات پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا۔غیر جانبدار آوازوں اور اداروں کو ختم کرنے کے یہی نتائج ہوا کرتے ہیں۔ریاستی امور اور ریاستی اسٹرکچر کوئی مذاق نہیں ہوا کرتے۔نہ ہی یہ ریت کے گھروندے ہوتے ہیں جب دل چاہا ڈھا دیا۔ جب دل چاہا پھر سے بنا دیا۔

ریاست کسی طوائف کا کوٹھا نہیں ہوتا کہ جب دل چاہا دل بہلانے آگئے اور جب دل چاہا چلے گئے۔پاکستان کی عسکری،سیاسی، بیوروکریسی اور مالیاتی اشرافیہ کو ایک روز حساب دینا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ یہاں ان سے کوئی حساب لے نہیں سکتا۔اور لگتا ہے کہ وہاں مولانا فضل الرحمن اور طاہر اشرفی سمیت پوری دفاع پاکستان کونسل حساب لینے نہیں دے گی۔کیونکہ ان کے پاس تو جنت کے سرٹیفیکیٹ ہیں۔جس کو چاہیں جاری کر دیں۔ شریفوں، زرداریوں اور عمران خانوں اور بہادر شہہ سواروں نے انہیں ویسے ہی تو ساتھ نہیں ملایا ہوا۔۔۔کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔یقین نہیں آتا تو ان کے معتقدین سے پوچھ لیجئے۔وہ اپ کو ان کی ایسی ایسی کرامات گنوائیں گے کہ اپ پر ویسے ہی جذب طاری ہو جائے گا۔پھر فرشتے ان کے اگے کیا بیچتے ہیں۔۔۔۔۔؟یقینی طور پر تمام این او سیز ، آگے پیش کرنے کے لیے،سنبھال لیے ہوں گے۔  خدانخواستہ ،کوئی مسئلہ ہوا تو قاضی اور وکیل تو ویسے ہی اپنے ہیں۔ان نورانی شخصیات اور نورانی تصورات کے باوجود،مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میڈیا کی تباہی کے  مکمل نتائج، ریاست سمیت سب بھگت رہے ہیں اور مزید بھگتیں گے۔(ناصر جمال)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں