تحریر: ناصر جمال
جڑواں شہروں(اسلام آباد+راولپنڈی) کی شنگھائی کانفرنس کے عذاب سے جان چھوٹ گئی۔ دونوں شہروں میں غیر اعلانیہ کرفیو کا سماں تھا۔ اسی لاکھ سے زائد آبادی، سیکیورٹی اداروں کے محاصرے میں تھی۔ بل کلنٹن کی آمد پر، پرویز مشرف حکومت نے یہی کچھ کیا تھا۔ اس بار یہ اعزاز لیگی+ اسٹیبلشمنٹ ہائبرڈ رجیم کے حصے میں آیا ہے۔ پٹرول پمپس، چھوٹی مارکیٹیں تک بند تھیں۔ سڑکوں پر لوگوں کو روکنے کے لئے، مٹی کے پہاڑ کھڑے کردیئے گئے۔
ضیاء الحق نے نالائق سیاستدانوں کا جو پودا لگایا تھا۔ اب وہ گھنا اور مضبوط برگد بن گیا ہے۔ جواپنے نیچے گھاس تک اگنے،بارش اور دُھوپ بھی نہیں آنے دیتا۔ سب کچھ خود ہڑپ کرجاتا ہے۔ اُس نے اس ملک کی بیورو کریسی کو بھی ’’خواجہ سرا‘‘ بنا دیا ہے۔ اُس نے ان کے سر پر پوسٹنگ اور ترقی کے، جاتی اُمرا، نوابشاہ، بنی گالہ اور پنڈی کے وہ آہنی کڑے پہنا دیئے ہیں کہ ان کی دولہ شاہ کے چوہوں کی طرح دماغی گروتھ (نشونما) ہی رک گئی ہے۔دوسرے معنوں میں انتظامی اسٹرکچر(ڈھانچہ) زمین بوس ہوگیا ۔ پنڈی تو چھوڑیں، آپ ساٹھ سال کے اندر اسلام آباد میں بھی ایک آئیڈیل ڈھانچہ تک نہیں بناسکے۔آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس، انٹیلیجنس بیورو، سپیشل برانچ، پولیس، رینجرز، اوپر سے فوج، ایف۔ آئی۔ اے کے ہوتے ہوئے، آپ کو کرفیو لگانا پڑتا ہے۔ شہر کو ہزاروں کنٹینرز لگا کر بند کرنا پڑتا ہے۔ پھر بھی راستے بند نہیں ہو پاتے۔
سیف سٹی، مُنہ کے بل گرا ہوا ہے۔ انتظامی ڈھانچے میں جب لوگ، سفارش، پیسے اور ضمیر گروی رکھنے کے بعد لگیں گے تو پھر نتائج بھی ایسے ہی ہونگے۔آپ نے ایک بھرپور شہر کیوں نہیں ترتیب دیا۔ ؟ ساٹھ سال، چھ دہائیاں ہوتی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں اور بیورو کریسی کا جنازہ، شنگھائی کانفرنس کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔حافظ صاحب ائیں اور اسے اٹھا کر لے جائیں۔پرانے پنڈی ایئرپورٹ، ایکسپریس وے، فیض آباد چوک سے کلب روڈ، ریڈ زون میں مصنوعی تزہین و آرائش پر اربوں روپے لگا دیئے گئے۔ پھر یوٹیوبرز، پے رول پر موجود صحافیوں اور انتظامی افسران سے ’’خوبصورت‘‘ اسلام آباد کے ٹیوٹ کروائے گئے۔ دُور مت جائیں۔ اسی وقت اسلام آباد بلیو ایریا کی سروس روڈ بدترین حالت میں، اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی۔
ہونا تو یہ چاہیئے تھا۔ شہر مہمانوں اور وفود کے لئے اوپن ہوتا۔ وہ اصل اسلام آباد، اس کے لوگ، کلچر، مقامات، قدرتی حُسن دیکھتے۔ جب دل میں چور ہوتا ہے تو پھر شہروں کو اوپن نہیں بلکہ جیل میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ ساٹھ سال کے مرمت کے پیسے آپ کھا جائیں۔ میں دھائیوں سے دیکھ رہا ہوں کسی چیئرمین سی۔ ڈی۔ اے کو باقی شہر تو چھوڑیں، بلیو ایریا میں درختوں کی چھنگائی اور ستھرائی کی توفیق نہیں ہوئی۔ با اثر لوگوں، تاجروں اوربھتے کے سامنے، سی۔ ڈی۔ اے لیٹی ہوئی ہے۔پراپرٹی بوم کے بعد انہوں نے شہر کی بجائے لوٹ مار پر توجہ دی ہے۔ اس ادارے نے اسلام آباد کو کچرہ کنڈی بنا دیا ہے۔ تجاوزات ہی تجاوزات ہیں۔ اسلام آباد پولیس جلد ہی پنجاب اور سندھ پولیس کو بھی پیچھے چھوڑ دے گی۔ جس کی مرضی آتی ہے وہ راستہ بند کردیتا ہے۔
ہےکسی حکومت میں جرات، وہ میر شکیل الرحمن کے جنگ، جیو والا راستہ کھول کر دکھا دے۔ شورومز کی ہزاروں گاڑیاں پبلک پارکنگ کھا گئیں۔ وزیر داخلہ، کمشنر، چیئرمین سی۔ ڈی۔ اے کو چُلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہئے۔
دنیا کے پہلے ’’پلینڈ شہر‘‘ کا انھوں نے کیا حال کر دیا ہے۔ یہاں کی ٹریفک پولیس یوٹرن پولیس ہے۔ جہاں جائو راستہ بند ہے۔ مارگلہ ایونیو ایک عسکری ادارے نے ابھی بنایا۔ملک قومی معیشت اور کرکٹ ٹیم کی طرح وہ ابھی ہی سے بیٹھ گیا۔ داخلے اور اخراج کےراستے تک نہیں دیئے گئے، کئی، کئی کلومیٹر گھوم کر یوٹرن لیں۔ بہت ہی شرمناک اور خوفناک صورتحال ہے۔
خیر، قارئین، ہم بھی کس میں الجھ گئے۔ یہی ہمارا تقدیر مقدرہے۔ قوم اب شنگھائی کانفرنس کو چاٹے۔پہلے ہی بہت خرچہ ہو گیا ہے وہ مزید ٹیکسوں کے لیے تیار رہے۔
کالم کے عنوان کی طرف آتے ہیں۔ قلم کار نے اس پر متعدد بار اور مسلسل لکھا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے پہلے عمران خان اور اب چھوٹےبائوجی کے ساتھ مل کر ’’قومی میڈیا‘‘ کو جیسے تباہ کیا ہے۔ اس کی قیمت ریاست اور عوام ادا کرے گی۔ میڈیا کے ساتھ، درانی اور شیخ رشید نے مشرف کو ورغلا کر ’’کراس میڈیا‘‘ پالیسی کی منظوری دی۔ وہ تباہ کن تھی۔ جس کے پاس اخبار ہو، اسے نیوز چینل کا لائسنس نہیں دیا جاتا۔سابق وزیر اطلاعات نثار میمن اس پر ڈٹ گئے تھے۔انہوں نے چیختے چنگھاڑتے دھمکے لگاتے میر شکل الرحمان کو کہا کہ جائیں چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف کو میری شکایت کر دیں۔مجھے وزارت سے ہٹوا دیں۔جب تک میں ہوں کراس میڈیا نہیں ہونے دوں گا۔مجھے بتاؤ دنیا میں کہاں پر کراس میڈیا ہے۔اپ اخبار اور ٹی وی میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیں۔پھر کیا ہوا۔ پہلے اخبارات تباہ ہوئے۔ اخبار اور ٹی۔ وی ایک ہی خبری مواد پر چلنے لگے۔ پھر اشتہارات کے عوض’’خبر‘‘ بیچ دی گئی۔ قوم کو بتایا گیا سب کچھ، کرنٹ افیئر ہے۔ اصل صحافت تواینکر کرتے ہیں۔ جو 95 فیصد رپورٹرز کی خبروں کی ’’جُگالی‘‘ کرتے ہیں۔اینکروں کو اسٹوڈیوز میں بیٹھے، ایجنڈے اور بیانیے کی خبریں دی جانے لگیں۔ اینکرز کی اکثریت، کسی نہ کسی کو پیاری ہوگئی۔ قوم نے یہ سب کچھ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اخبارات نے اخبارات کی پرنٹنگ کو نقصان قرار دیتے ہوئے انتہائی محدود کردیا۔ اشتہارات پھر بھی اتنے ہی ملتے رہے۔ ٹی۔ وی نے بیانیے پرموٹ کرنا شروع کردیئے۔ بغیر محنت اور خبری مواد کے اربوں میں پیسے بٹنے لگے۔صحافیوں اور ورکروں کی ڈاؤن سائزنگ شروع ہو گئی۔صحافتی تنظیموں نے عملی اقدامات کی بجائے ( ر) رونے روئے اور مستفید ہوئے۔
قلم کار کو ایک حساس ادارے کے افسر نے پرکشش پیکج کی آفر کی کہا کہ، کیریئر کا پرائم ٹائم ضائع کررہے ہو۔ اچھا بولتے ہو۔ خبر تمہارے پاس ہوتی ہے۔ بروقت شعر و ادب کا استعمال کرتے ہو۔ شکل و صورت بھی ٹھیک ہے۔ ہمارے پے رول پر آجائو، عیاشی کرو۔ بچوں کو بھی سہولت دو۔ جہاں کہو گے، وہاں بٹھا دیں گے۔ لکھتے بھی خوب ہو۔ اپنا نہیں تو بچوں کا خیال کرو۔ جن کی فیس اور گھر کے کرائے کے لئے،ہر ماہ پریشان رہتے ہو۔ میرے انکار پر غیر ملکی کرنسی والی الماری کھول دی کہا کہ جتنے چاہو اٹھا لو۔ میرے مسکراہٹ بھرے انکار پر، روایتی انداز میں کہا کہ آر یو شیور، میں نے قہقہہ لگا کر کہا کہ ’’ہاں‘‘وہ بڑی ٹیبل کے دوسرے طرف آئے۔ میرا ماتھا چوما اور کہا کہ مزہ آگیا۔ تم جیسے، اب تک صرف تین دانے ہی ملے ہیں۔میں ہنس کر کہا کہ بہت ہیں۔ آپکو نظر نہیں آتے۔ان کے حلق سے بھی فلک شگاف قہقہہ برآمد ہوا۔بے وقوف قلم کار ویسے ہی ان کے دفتر سے پاؤں پاؤں واپس سیکرٹیریٹ چلا گیا۔
قارئین!!!پروفیشنل صحافیوں نےنظریات اور اصولوں پر ڈٹ کر، بڑی، بڑی قربانیاں دی ہیں۔ سب سے زیادہ نقصان، انہی نے اٹھایا ہے۔ جبکہ ’’ موسٹ سینیئر پروفیشنل پیراشوٹر صحافیوں‘‘ نے قلم ضمیر، سوچ، گروی کرکے اپنے ناقابل یقین حد تک درجات بلند کئے ہیں۔ وہ اسے پریکٹیکل صحافت اور اپروچ کہتے ہیں۔ مگر انسانی تاریخ گواہ ہے۔ قوموں، شعبوں اور پیشوں کے میر جعفر، میر صادق یا حسین حقانی تاریخ میں زندہ رہنے کی بجائے ہمیشہ دفن ہوئے ہیں۔مزاحمت زندہ رہتی ہے۔ بھٹو کو دیکھ لیں۔ اختلاف یا اتفاق اپنی جگہ پر، مینڈیلا دیکھ لیں۔ جناح یا گاندھی دیکھ لیں۔ کردار زندہ رہتا ہے۔شریف، زرداری، تاریخ کا بوجھ ہیں، عمران کا جلد فیصلہ ہوجائے گا۔ دیکھ لیں غیر معروف محمد خان جونیجو نہیں مرا، ہر بار کہیں نہ کہیں سے نکل ہی آتا ہے۔ آج آمر کہاں ہیں۔ ان کی نسلیں، شرمندہ، شرمندہ گھومتی نظر آتی ہیں۔
اسی طرح سے صحافت کے مزاحمتی کردار آج بھی زندہ ہیں۔ وہ جو اقتدار اور مراعات کے ساتھ بہے کہاں ہیں۔ اسلام آباد میں ایسے دو ستر پلس والے کردار بھی ہیں۔ لوگ تھوکتے ہیں۔ مجھے نام بھی لکھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اور سب سجھ جائیں گے۔ ایک دوسرے سے بڑھ کر ایک دوسرے کے والد۔۔ قدرت کا کیا خوفناک انتقام ہے۔ففتھ جنریشن، وارفیر ویپن، ہمارے عساکر کی ایجاد ہے۔ انکا ہر پروجیکٹ 76 سالوں میں انہی کے گلے پڑا ہے۔ آپ، چوہدری محمد علی سے اسکندر مرزا، بھٹو، جونیجو، نواز شریف، زرداری، پھر بے نظیر، عمران خان، ایک تاریخ ہے۔ میں اس میں چھوٹے باؤجی کو شامل نہیں کرتا۔کیونکہ انہوں نے اپنی ریڈ کی ہڈی مستقل طور پہ نکلوا دی ہے۔اس پر تو ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ ’’اسٹیبلشمنٹ کے پروجیکٹ‘‘ مشرف الیکٹرانک میڈیا لیکر آئے۔ جنرل کیانی نے، یہیں سے اپنے باس کا شکار کیا۔ دو توسیع لیں۔ آج بھی ہینگر پر جناح کیپ سجائے، نمودار ہوجاتے ہیں۔ پھر سوشل میڈیا کا ہتھیار خوب طریقے سے استعمال کیا۔ مین سٹریم میڈیا کی کریڈیبلٹی تباہ کردی۔ اب سوشل میڈیا آئوٹ آف کنٹرول ہوا ہے۔ بقول مبشر زیدی کے ففتھئیے ، اپنے موجد کو پڑ گئے ہیں۔تمام بونافائیڈی قلم کار، سمجھاتے رہے۔ یہ کام نہ کرو۔ ایک وقت آئے گا۔ قوم، کسی آواز پر اعتبار نہیں کرے گی۔صرف، دو تین ہفتوں میں ، سب بے نقاب ہوگئے ہیں۔
پنجاب میں عظمیٰ بخاری صحافیوں کو نوکریوں کی دھمکیاں دے رہی ہیں۔ پنجاب کالج والے مبینہ واقعہ نے پوری حکومت کو ہلا دیا ہے۔اگر واقعہ نہیں ہوا تو ’’کالج کی فوٹیج، وزیر اعلیٰ نے کیوں نہیں چلائی، صوبائی وزیر تعلیم رانا نے کیوں کالج کا لائسنس معطل کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں واقعہ ہوا ہے۔اب پنجاب حکومت، انتقامی کاروائیوں پر اتر آئی ہے۔ حالانکہ اُسے غیر جانبدار ہوتے ہوئے، مکمل حقائق سامنے رکھنے چاہئیں تھے۔ مبینہ کالج فوٹیج کو جو کہ پولیس کسٹڈی میں بتائی جاتی ہے۔ وہ کیوں سامنے نہیں لائی جارہی۔ایاز امیر اور سمیع ابراہیم پر اس ضمن میں مقدمے کا انداراج، انتہائی قابل مذمت ہے۔ ایاز امیر تو پاکستان کا (سارتر) ضمیر ہے۔اسے کیسے قید کیا جا سکتا ہے۔؟میرے خیال میں مریم نواز کے اندر کا عمران خان باہر آچکا ہے۔ میڈیا قدغنوں اور آمرانہ رویوں میں وہ ہم پلہ ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک بدتمیز شخص کی میڈیا پر خدمات حاصل کی جارہی ہیں۔نجم ولی رضی دادا اخر یہ کون لوگ ہیں۔ان میں صبر کیوں نہیں ہے۔فواد چوھدری کے ماموں چوھدری شہباز حسین سے میرا انتہائی ذاتی تعلق ہے۔ان کے اقتدار میں ایک دن بھی ان کے دفتر نہیں گیا۔فواد چوہدری کی مہربانی ہے وہ بلاتے رہ گئے۔نثار میمن حیات ہیں انہیں بھی پی ٹی وی پر نوکری سے انکار کر دیا تھا۔شاید ہم پاگل تھے اج کے ”صحافی“ بہت سمجھدار ہیں۔ حامد میر نے کبھی کہا تھا کہ مریم نواز، جس روز اقتدار میں آئی، میڈیا والے، تمام آمروں کو بھول جائیں گے۔
مگر قلم کار کو تو کچھ اور ہی نظر آرہا ہے۔ لیگی، اسٹیبی، جیالے، کھلاڑی قلم کار، یوٹیوبرز، اینکر پھر بھی بچ جائیں گے۔اس میں سب سے زیادہ نقصان، ایک بار پھر اُن صحافیوں کو ہونےجارہا ہے۔ جنہیں ہر حکومت اپنا مخالف سمجھتی ہے۔ ہر طرف اس ملک سےمحبت کرنے والوں کی تباہی ہی تباہی ہے۔۔۔۔(ناصر جمال)۔۔