تحریر: حامد میر
پاکستان کی سیاست آج کل اردو زبان کے چند محاوروں کے گرد گھوم رہی ہے۔ اس سیاست کے سینے میں واقعی دل نہیں ہے۔ جن کے پاس اختیار ہے وہ بھیڑ کے روپ میں بھیڑیئے بنے نظر آتے ہیں اور جن کے پاس اختیار نہیں وہ پریشان ہیں کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کیسے باندھیں۔اس بلی سے دودھ کی رکھوالی بھی کرائی جاتی ہے اور دودھ پی جانے کے بعد جب اس بلی کو نیند آتی ہے تو پھر یہ چھیچھڑوں کے خواب دیکھتی ہے۔یہ بلی ایک بندر کے ہاتھوں بڑی پریشان ہے جس کے ہاتھ میں اُسترا آ چکا ہے۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ بندر اپنے ہاتھ میں اُسترا دکھا دکھا کر دوسروں کو صرف ڈرائے گا یا اس اُسترے کو اپنی ہی گردن پر چلائے گا؟
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ بندر کون ہے؟ کل رات کو ایک صاحبِ اختیار نے بڑے جاہ و جلال کے ساتھ مجھے بتایا کہ یہ بندر دراصل تم میڈیا والے ہو، میڈیا نے اپنی آزادی کو ایک اُسترا بنا لیا ہے۔
پہلے یہ اُسترا دوسروں پر چلایا اور اب تم نے اس استرے کو اپنی ہی گردن پر چلا دیا ہے۔ یہ سن کر میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا جناب کون سی آزادی اور کون سا اُسترا؟ اس میڈیا میں آزادی صرف اُن کے پاس ہے جو حکومت کے خوشامدی ہیں، جو حکومت پر تنقید کرتا ہے اُس کا حال تو پوری دنیا کو معلوم ہے۔ پھر میں نے جان کی امان پاتے ہوئے میر تقی میرؔ کا یہ شعر عرض کیا؎
پتا پتا، بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے۔۔جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
یہ شعر سن کر صاحبِ اختیار کے لہجے کی تلخی کچھ کم ہوئی اور انہوں نے کہا کہ تم میڈیا والوں نے کئی دنوں سے نواز شریف کی بیماری کے معاملے پر حکومت کو دیوار کے ساتھ لگا رکھا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف کو ہم نے بیمار کیا ہے۔ ہم تو آئین و قانون کی بالادستی چاہتے ہیں لیکن میڈیا ہمیں آئین و قانون کا دشمن بنا کر پیش کر رہا ہے۔
میں نے عرض کیا کہ چلیں نواز شریف کو چھوڑیں آپ یہ دیکھیں کہ جب عمران خان نے 2014میں دھرنا دیا تھا تو میڈیا کنٹینر سے اُن کی لمبی لمبی تقریریں براہِ راست نشر کرتا تھا لیکن جب سے مولانا فضل الرحمٰن کنٹینر پر چڑھے ہیں تو ایک آدھ کے سوا میڈیا نے اُن کی کوئی تقریر براہِ راست نشر نہیں کی۔ یہ سُن کر صاحبِ اختیار نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہا کہ دھرنا تو صرف ڈی چوک میں ہوتا ہے، پشاور موڑ پر دھرنا نہیں صرف ڈرامہ ہوتا ہے۔
میں نے پوچھا کہ اگر مولانا نے ملک کی اہم شاہراہیں بند کرنے کا اعلان کر دیا تو پھر کیا ہوگا؟ صاحبِ اختیار نے کہا کہ اس کا مطلب ہے مولانا پاکستان کے دشمنوں کی مدد کر رہا ہے اور دنیا میں پاکستان کو بدنام کر رہا ہے۔ میں خاموش ہو گیا اور دل میں سوچنے لگا کہ کرتار پور راہداری کے افتتاح پر پاکستان کے سب سے بڑے دشمن نریندر مودی نے شکریہ تو عمران خان کا ادا کیا ہے،
مولانا فضل الرحمٰن تو اس راہداری کے افتتاح کی ٹائمنگ پر اعتراض کر رہے تھے تو پھر کس نے کس کو خوش کیا؟ صاحبِ اختیار نے پوچھا کیا سوچ رہے ہو؟ میں نے موضوع بدلتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے مولانا صاحب آپ کے 2014کے دھرنے کی تقلید نہیں بلکہ تقلیب کر رہے ہیں؟صاحبِ اختیار نے بہت بُرا سا منہ بنایا اور پوچھا، اوئے یہ تقلیب کیا ہوتی ہے؟ میں نے بتایا کہ تقلیب کا مطلب ’’پیروڈی‘‘ ہے۔پیروڈی اُن کو فوری سمجھ آ گئی اور کہنے لگے مولانا نے کیا پیروڈی کی ہے؟
صاحبِ اختیار نے قدرے سنجیدہ لہجے میں شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج تم نے مجھے کافی نئی باتیں بتائی ہیں اب آخر میں یہ بھی بتا دو کہ مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد کیا لینے آیا ہے؟ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میرے پاس جواب موجود ہے لیکن آپ وعدہ کریں کہ ماریں گے تو نہیں۔اُنہوں نے کہا کہ نہیں نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے تم بلا جھجک جواب دو۔ میں نے کہا کہ مولانا استعفیٰ لینے نہیں آیا وہ کسی کے ہاتھ سے اُسترا چھیننے آیا ہے کیونکہ اُسے یقین ہے کہ بہت جلد یہ اُسترا چلنے والا ہے اور کسی نہ کسی کی گردن زخمی ہونے والی ہے وہ تو کسی گردن کو بچانے آیا ہے،لیکن ضروری نہیں کہ مجھے مولانا صاحب سے اتفاق بھی ہو وہ جانیں اور آپ جانیں۔ مولانا نے اسلام آباد میں دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور اہم شاہراہیں بند کرنے جا رہے ہیں لیکن خطرہ یہ ہے کہ استرا چھینتے چھینتے وہ خود استرے کا شکار نہ ہو جائیں۔(بشکریہ جنگ)