justice mansoor ka raasta pti ne roka

میڈیا کی آزادی کو خطرات

تحریر: حامد میر۔۔
شہباز شریف نے بطور وزیر اعظم وہ کون سا کارنامہ سرانجام دیا ہے جس کی وجہ سے آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کو ووٹ ڈالے جانے چاہئیں؟ یہ وہ سوال ہے جو آج کل تحریک انصاف کے حامی مسلم لیگ ن والوں سےپوچھتے ہیں ۔مسلم لیگ ن والے کوئی جواب دینے کی بجائے پوچھتے ہیں کہ عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں ایسا کون سا کارنامہ کیا کہ عوام الیکشن میں تحریک انصاف کو ووٹ ڈالیں ؟تحریک انصاف کی حکومت ساڑھے تین سال تک قائم رہی اور شہباز شریف صرف 16ماہ تک حکومت میں تھے۔دونوں حکومتوں کا تقابلی جائزہ لینا بہت مشکل ہے لیکن یہ کہناغلط نہ ہو گا کہ جتنی مہنگائی تحریک انصاف کے ساڑھے تین سال میں ہوئی اس سے زیادہ مہنگائی شہباز شریف کے سولہ ماہ میں ہو گئی۔ شہباز شریف بڑے فخر سے کہہ رہے ہیں کہ عمران خان نے پاکستان کو ڈیفالٹ کے خطرے سے دو چار کر دیا تھا لیکن ہم نے ریاست بچانے کیلئے اپنی سیاست کو قربان کیا اور مشکل فیصلوں کے ذریعہ پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچا لیا۔اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ اپریل 2022ء میں شہباز شریف وزیر اعظم بنے تو انہیں بہت سے چیلنجز کا سامنا تھا۔ سب سے بڑا چیلنج تو خود ان کی اپنی حکومت تھی جس میں ایک درجن سے زیادہ جماعتوں کے نمائندے شامل تھے اور ان سب کو ساتھ لیکر چلنا بہت مشکل تھا۔دوسرا بڑا چیلنج ملک کے معاشی حالات تھے، تحریک انصاف نے آئی ایم ایف کے ساتھ ایک معاہدہ کیا لیکن اس معاہدے پر عملدرآمد نہیں کیا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضہ لے لیا لیکن پٹرول، گیس اور بجلی کے نرخوں میں اتنا اضافہ نہ کیا جس کا وعدہ آئی ایم ایف سے کیا گیا تھا۔پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے پٹرول، گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ شہباز شریف کوکرنا پڑا جس سے عام پاکستانیوں پر معاشی بوجھ بہت زیادہ بڑھ گیا۔ شہباز شریف کیلئے تیسرا بڑا چیلنج عمران خان تھے جو اُن سے جلد از جلد نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کر رہےتھے۔اب تو عمران خان کے ایک پرانے ساتھی پرویز خٹک نے بھی اعتراف کر لیا ہے کہ پچھلے سولہ ماہ میں عمران خان کو بار بار انتخابات میں جانے کا موقع ملا لیکن انہوں نے یہ موقع ضائع کیا۔
مئی 2022ء میں شہباز شریف اپنے اتحادیوں کی مخالفت کے باوجود قومی اسمبلی توڑ کر انتخابات کے اعلان پر راضی ہو چکے تھے ۔جب عمران خان کو پتہ چلا کہ قومی اسمبلی ٹوٹنے والی ہے تو انہوں نے ایک گیم کھیلنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان کر دیا تاکہ یہ تاثر ملے کہ شہباز شریف نےتحریک انصاف کے دبائو پر اسمبلی توڑنے کا اعلان کیا۔29مئی 2022ء کا دن عمران خان کی سیاسی طاقت اور سیاسی دانش کے امتحان کا دن تھا وہ خیبر پختونخوا حکومت کے تمام وسائل کے ساتھ اسلام آباد پر حملہ آور ہوئے لیکن جب اسلام آباد پہنچے تو ان کےساتھ لاکھوں نہیں بلکہ ہزاروں کا مجمع تھا لہٰذا وہ اسلام آباد فتح کرنے میں ناکام رہے ۔شہباز شریف نے قومی اسمبلی توڑنے سے انکار کر دیا اور یوں پاکستان کی سیاست ایک قبائلی جنگ بن گئی ۔اس دوران عمران خان پر ایک قاتلانہ حملہ ہوگیا وہ مزید مظلوم بن گئے اس مظلومیت کی چادر اوڑھ کر انہوں نے نومبر 2022ء میں اسلام آباد پر ایک اور حملہ کیا اور دوبارہ ناکا م ہو گئے۔انہوں نے کچھ ضمنی الیکشن تو جیت لئےلیکن سٹریٹ پاور نہ دکھا سکے۔ انہوں نے فوجی قیادت پر بھی حملے شروع کر دیئے اور آرمی چیف کی تقرری کے فیصلے پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی۔29نومبر 2022ءکا دن شہباز شریف کیلئے بڑا مشکل تھا جنرل قمر جاوید باجوہ بار بار مارشل لاء کی دھمکی دے چکےتھے لیکن نواز شریف اور شہباز شریف نے ہر دبائو کو مسترد کرتے ہوئے جنرل عاصم منیر کو نیا آرمی چیف بنا کر پاکستان کو مارشل لاء سے بچا لیا۔
جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے کے بعد ایک طرف عمران خان کی طرف سے ریاستی اداروں پر تنقید میں تیزی آئی اور دوسری طرف ٹی ٹی پی کی طرف سے بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں تیزی آگئی ۔9مئی 2023ء کو عمران خان کی گرفتاری پر تحریک انصاف کے پرتشدد ردعمل نے پاکستان کا سیاسی منظر نامہ بدل دیا ۔ایک سیاسی جماعت کی طرف سے ریاستی اداروں پر کھلم کھلا حملوں کے بعد شہباز شریف کو بطور وزیر اعظم اداروں کے پیچھے کھڑا ہونا پڑا ۔تحریک انصاف کی پرتشدد سیاست کیخلاف اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کو ایک موثر سیاسی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت تھی لیکن یہ ذمہ داری صرف ریاستی اداروں پر چھوڑ دی گئی۔ ریاستی اداروں نے تحریک انصاف سے لڑنے کیلئے ایسے قوانین بنانے پر اصرار کیا جو آئین پاکستان سے متصادم تھے ۔شہباز شریف کے سولہ ماہ میں اتنی قانون سازی ہوئی ہے جو عمران خان کےساڑھے تین سالہ دور میں بھی نہیں ہوئی۔یہ دراصل عجلت میں کی گئی قانون سازی تھی۔ میں نے دسمبر 2022ء میں جرنلٹس سیفٹی فورم اسلام آباد کے چیئرمین کی حیثیت سے شہباز شریف کو ایک انٹرنیشنل سیمینار میں بلایا جہاں انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ میڈیا کی آزادی کا تحفظ کریں گے۔بدقسمتی سے ان کے سولہ ماہ میں میڈیا کی آزادی کو انہی خطرات کا سامنا تھا جو ہمیں عمران خان کے دور میں بھی درپیش تھے۔شہباز شریف حکومت کے آخری دنوں میں قومی اسمبلی اور سینٹ نے قانون سازی تو بہت کی لیکن بہت سے ایسے قوانین بھی منظور کئے گئے جن سے پارلیمینٹ کمزور اور کچھ ادارے مضبوط ہونگے۔
شہباز شریف نے اپنے سولہ ماہ میں پاکستان کو ڈیفالٹ اور مار شل لاء سے تو بچا لیا لیکن ایسے قانون بھی منظور کرالئے جن سے جمہوریت مضبوط نہیں بلکہ کمزورہو گی۔ انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک لاپتہ صحافی مدثر نارو کی والدہ اور ننھے بچے سچل سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مدثر نارو کو بازیاب کرائیں گے۔یہ وعدہ پورا نہ ہو سکا ان سولہ ماہ میں شہباز شریف روزانہ صبح ساڑھے چھ سات بجے سرکاری کام شروع کر دیتے تھے۔سرکاری بابو ان سے بہت تنگ تھے لیکن اس عادت کی وجہ سے راولپنڈی والے ان سے بہت خوش ہیں کیونکہ وہ بھی صبح جلدی کام شروع کرتے ہیں ،جاتے جاتے انہوں نے عمران خان کو بھی اٹک جیل پہنچا دیا جہاں کسی زمانے میں شہباز شریف بھی قید تھے دونوں نے ایک دوسرے سے خوب انتقام لیا؟(بشکریہ جنگ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں