media khud zaabta ikhlaaq bnana chahta hai

میڈیا خود ضابطہ اخلاق بناناچاہے تو بتائے کس کی مدد درکارہے؟

سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کئے جانے کے خلاف ازخو د نوٹس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ‏سوشل میڈیا نے اداروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے، تھمبنیل پر جو کچھ لکھا ہوتا ہے وہ اندر نہیں ہوتا، یہ بہت عجیب ہے۔ فیئر تنقید میں مسئلہ نہیں لیکن جو زبان استعمال کی جاتی ہے وہ غلط ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ انہوں نے تو قائد اعظم کا بھی مذاق اڑایا ہے، جس پر صحافی مطیع اللہ جان نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل کا سوموٹو بھی مقرر کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ارشد شریف کا کیس ہوسکتا ہے آئندہ سماعت پر ساتھ ہی لگا دیں، اس وقت کوئی ایسا حکم نہیں دینا چاہتے جو ارشد شریف کے کیس میں جاری احکامات سے متصادم ہوں۔صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ فیصلے پر تنقید ہونی چاہیے لیکن ججز کے خلاف من گھڑت کہانیاں نہیں بنانی چاہیے،جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ یوٹیوب کا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہیں ہوتا، ٹی وی کے لیے تو پیمرا کا ضابطہ اخلاق موجود ہے اور جو کچھ یوٹیوب کے تھمب نیل میں ہوتا ہے وہ ویڈیو میں نہیں ہوتا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نفرت انگیز تقاریر کیساتھ کچھ اور چیزیں بھی صرف پاکستان میں ہی ہوتی ہیں، پولیو ورکرز کو قتل کر دیا جاتا ہے اور خواتین کے اسکولوں میں بم مارے جاتے ہیں، انتہاء پسند سوچ کیخلاف حکومت کیوں کچھ نہیں کرتی؟ خواتین کو ووٹ ڈالنے اور پولیو قطروں سے روکنے والوں کو کیوں نہیں پکڑا جاتا؟ جڑانوالہ میں دیکھیں کیا ہوا، سب نفرت کا نتیجہ ہے، ان لوگوں کو استعمال کیا جاتا رہا ہے اب یہ اژدھا بن گئے ہیں، خواتین کو ووٹ سے روکنے کا فتویٰ دینے والے کو کیوں نہیں پکڑا؟جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ میڈیا خود ضابطہ اخلاق بنانا چاہتا ہے تو بتائے کس کی مدد درکار ہے؟ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پریس ایسوسی ایشن کسی غلط خبر کی تردید کرتی ہے؟ ہتک عزت کیس ہوجائے تو 50سال فیصلہ ہی نہیں ہوگا، چیف جسٹس۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ گالی دیکر پیسے کمانا لوگوں کا ذریعہ معاش بن چکا ہے، یہ بہت دکھ کی بات ہے۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں