media ke sodagar

میڈیا کے سوداگر۔۔

تحریر: نظام الدین

اخبارات کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ دنیا کا پہلا اخبار 1622میں انگلستان میں شائع ہوا جس کا نام ویکلی نیوز تھا۔ جو 1785 سے اب تک ٹائمز اخبار کے نام سے جانا جاتا ہے ،

فرانس میں پہلا اخبار 1631 میں شائع ہوا۔ جس کا نام گزٹ دی فرانس تھا۔ روس کے پہلے اخبار کی بنیاد 1702 ویدوموستی کے نام سے رکھی گئی، امریکا میں 1703 میں بوسٹن نیوز لیٹر شائع ہوا ،

 جبکہ برصغیر پاک و ہند میں جام جہاں نما 1850 میں شائع ہوا ۔مگرحتمی طور پر اولین اشتہار اور سرکاری فنڈ ملنے کاسراغ لگانا کافی مشکل کام تھا ؟ مگر تحقیق یہ بتاتی ہے 1704میں امریکی بوسٹن نیوز لیٹر میں پہلا اشتہار ہی سرکاری فنڈ سے شائع ہوا تھا جو اس وقت کے کسی ریاستی نمائندے نے ایک غلام کے فرار ہونے پر شائع کرایا تھا !!

لیکن یہ معلوم نہیں غلام بازیاب ہوا یا نہیں ؟ مگر صحیح معنوں میں اخبارات کو اشتہار اور سرکاری فنڈ حاصل کرنے کا عروج انیسویں صدی کے وسط کے بعد شروع ہوا جب اخبارات اور رسالوں میں حکومتی رفقاو نے اشتہارات چھپوانے شروع کیے،، بیسویں صدی میں نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ سرکاری فنڈ سے اشتہاربازی نے بہت ترقی حاصل کی اور اشتہارات خود ایک باقاعدہ شعبہ صنعت بن گیا ، ریڈیو، ٹیلی ویژن نے اسے نیا عروج بخشا۔ موبائل فون اور پھر سوشل میڈیا کے پھیلاؤ کے بعد یہ صنعت مزید پھیلی اور اب بالکل نئے انداز سےکام کر رہی ہے، اخبارجس کا کام لوگوں تک سچی اور ثبوت کے ساتھ خبر پہنچانا سمجھا جاتا ہے کے رستے میں پہلی بھرپور رکاوٹ ہی اشتہار بنتا ہے؟ شروع میں شاید اس کے اثرات اتنے گہرے نہ ہوں لیکن حقیقت یہ ہی ہے کہ جوں جوں سرمایہ داریت دنیا کو اپنے مضبوط پنجوں میں جکڑتی گئی، سچائی اور ثبوت کی گنجائش کم ہوتی چلی گئی اور سرمایہ داروں نے میڈیا کے اس شعبے کو ہی بیوپار بنالیا، اس کی یوں تو بے شمار مثالیں ہیں مگر تازہ مثال فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے 92 نیوز میڈیا ہاوس کے مالکان کی ہے جو 21ویں صدی کے دوسرے عشرے کے وسط میں تعلیم اور آئل کے دھندے میں منافع کی صورت اربوں روپے کمانے کے بعد میڈیا بزنس میں آئے اور بڑی سرمایہ کاری سے میڈیا کے کام کا آغاز کیا ۔ اپنے اسٹاف کو انٹرٹینمنٹ کے لیے سیٹھوں نے کھانا فراہم کرنے کی روایت کا آغاز بھی کیا۔چینل مستند باوقار بنانے کے لیے مارکیٹ سے اچھی ساکھ کے حامل تجربہ کار اور پروفیشنل میڈیا ورکرز کوہائیر کیا اس میڈیا ٹیم نے محنت سے کام کیا اور 6 فروری 2015 سے نشریات کا آغاز کرنے والے چینل نے ابتدا ہی میں عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی تو مالکان نے ایک سال بعد ہی 2016 سے پرنٹ میڈیا کی طرف پیش قدمی شروع کردی اور پھر وقتا فوقتا کچھ وقفے کے ساتھ پاکستان کے سات بڑے شہروں سے اخبار کا اجرا شروع کردیا، وہ مالکان جانتے تھے کہ پاکستان پر چند طاقتور اشرافیہ قابض ہے۔جو ریاست کے خزانے کو جس پر ان کا کوئی حق بھی نہیں وہ اس کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹ رہے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے ٹیکس فری، سبسڈی خور پاکستانی سیٹھ کو پرنٹ میڈیا کے پرافٹ میں کمی بھی خسارہ نظر آئی تو8 اکتوبر 2024 کو 92 نیوز میڈیا ہاؤس کے زیر انتظام 92 نیوز اخبار کے اسلام باد اور کراچی کے اسٹاپ کو فارغ کردیا اور اب اخبار تین شہروں سے شائع تو ہوگا لیکن اصل میں وہ “ڈمی” ہوگا، یہ میڈیا کے سوداگروں کا اخبار پر پہلا ڈاکہ نہیں تھا بلکہ تقریباً تمام بڑے قومی اخبارات کے سرمایہ داروں نے علاقائی اخبارات کے ایڈیشن شائع کرکے چھوٹے علاقائی اخبارات پر اثر انداز ہوکر سرکاری اشتہارات اور فنڈز حاصل کیے پھر رفتا رفتا تمام اخبارات کے ایڈیشن بند کر دیئے ، اس طرح اب تک وزارت اطلاعات چھ ہزار “ڈمی” اخبارات نوٹیفائی کرچکا ہے ، جبکہ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس ملک بھر میں تقریباً چار ہزار دو سو روزنامچوں اور ہفت روزہ اخبارات کا اندراج موجودجن کی مجموعی اشاعت دو کروڑ کے قریب ہے، اس طرح “ڈمی” اخبارات کی بھی دو اقسام ہیں پہلی اقسام کے تحت اخبار کا نام حاصل کرنے کے بعد سرمایہ داروں سے بات چیت کرکے سرمایہ حاصل کیا جاتا ہے مگر باقاعدہ اخبار طباعت نہیں ہوتا ، جبکہ “ڈمی” اخبار کی دوسری قسم میں صرف اشتہارات ملنے پر ان کی مخصوص تعداد میں اشاعت ہوتی ہے ،مگر مستند علاقائی چھوٹے اخبارات آج بھی تمام تر مالی مشکلات کے باوجود زندہ ہیں اور ان کی سرکولیشن مستحکم ہے اس لیے حکومتی پالیسی سازوں کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ علاقائی چھوٹے اخبارات کی اپنی ایک تاریخ ہے اُن کی اہمیت اور تعداد قومی اخبارات سے کہیں زیادہ ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ اہمیت مزید بڑھ رہی ہے۔ان علاقائی اخبارات کو کسی بھی صورت نظرانداز کرنا کسی بھی حکومت کے لئے مشکل بلکہ ناممکن ہے۔

ان اخبارات کا براہِ راست حکومتی پالیسیوں سے کوئی ٹکرائو بھی نہیں اور یہ اخبارات مقامی سطح پر ہمیشہ رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ ان اخبارات کی مقامی انتظامیہ، ہمیشہ متحرک رہتی ہے اور براہِ راست عوام کو جواب دہ بھی۔

علاقائی اخبارات کو زندہ رکھنا ریاستی و حکومتی اداروں کی ذمے داری ہے۔ ان اخبارات کو مالی طور پر مضبوط کرنا، جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا، مستقبل کے روشن پاکستان کے لئے انتہائی ضروری ہے

کیونکہ دور افتادہ کے گاؤں دیہاتوں کے مقامی لوگ علاقائی اخبارات سے زیادہ منسلک ہیں۔ قومی و بین الاقوامی سطح کی معلومات انہیں ٹی وی اور قومی اخبارات سے حاصل ہو رہی ہیں مگر قومی اخبارات میں جگہ نہ ہونے اور ٹی وی پر وقت نہ ہونے کے باعث ان کے اصل مسائل قومی میڈیاکی مجبوریوں کی دبیز تہہ تلے جم کر ماضی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایسے میں صرف علاقائی چھوٹے اخبارات ہی ہیں جو نہ صرف ان کے مسائل کو اجاگر کرتے ہیں اور پانی، صحت، تعلیم، سماجی بہبود،گلیوں محلوں اور سڑکوں کے مسائل علاقائی انتظامیہ اور پولیس کے مظالم ان اخبارات کے ذریعے حکام بالا تک پہنچ رہے ہیں ، بلکہ علاقے کی مؤثر آواز کے طور پر ایوان اقتدار کی فضاؤں کو مرتعش رکھے ہوئے ہیں علاقائی خبروں کے لئے جس طرح جدید میڈیاعلاقائی صحافتی نیٹ ورک کامرہون منت ہے اسی طرح اپنی آواز پوری دنیا تک پہنچانے کے لئے اب علاقائی اخبارات بھی جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لے رہے ہیں اور اپنی ویب سائٹ کے ذریعے کمپیوٹر اورموبائل پر موجود ہیں (نظام الدین)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں