تحریر: فاطمہ یاسین۔۔
ٹیکنالوجی کےاس دور میں جہاں لوگ اپنے قریبی رشتہ داروں اور فیملی کے افراد اپنے منہ سے اپنے الفاظ ضائع کرنے کی بجائے ، اپنے موبائل میں ٹائپنگ کو فوقیت دیتے نظر آتے ہیں۔ اپنے اطراف کی دنیا کو یکسر فراموش کرتے ہوئے الیکٹرونک میڈیا پر اپنا قیمتی وقت نشاور کرتے خود کو پوری طرح مصروف رکھتے نظر آتے ہیں۔ یہ آج کے دور کے اقبال کے شاہین اپنے آباؤ اجداد کی تعلیم کو فراموش کرتے ہوئے, اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرتے ہوئے یہ بھول بیٹھے ہیں کہ کتب بینی کی اہمیت و افادیت کیا ہے ؟
زمانہ چاہے کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے لیکن کتابیں پڑھنے کا ذوق اور شوق کبھی بھی نہیں بھلا سکتا ۔ اقبال کی شاعری کی کتابیں ، مستنصر حسین تارڑ کی تحریریں، غالب کے چٹ پٹے خطوط ، اقبال کا شکوہ ، جواب شکوہ اور ان جیسی بے شمار کتب کا کوئی ضرب المثل نہیں، کہ پہلےتو لوگ ان کتابوں کا اپنے پاس ذخیرہ کرتے تھے کہ مبادا ہم ان کتابوں کی افادیت سے محروم نہ رہ جائیں ، لیکن یہ آج کل کے نوجوان اپنے روبوٹک مشینری طرز زندگی میں اس قدر مشغول ہو چکے ہیں کہ ان کو پب جی پر گیم کھیلنے، سوشل میڈیا پر اسٹیٹس ڈالنے بے شمار فضول ایپس ڈاؤن لوڈ کرنے، سے فرصت نہیں کہ یہ تھوڑا کتابوں کا مطالعہ کرنے میں بھی اپنا وقت صرف کریں لیکن ہم نے تو کتابوں کو زندہ صبح صبح زندہ درگو کر دیا ۔ اور خود ہی گورکن بن کے کتابوں کو دفن کر ڈالا۔ یہ وہ کتابیں تھیں جنہیں پہلے لوگ سینے سے لگائے پھرتے تھے۔ کسی کو تحفہ دینا ہوتا تو لوگ لوگ کتابوں کی صورت میں دے کر اپنے پیار کا اظہار کرنا اپنا فخر سمجھتے تھے لیکن آج کے دور میں یہ رواج بہت کم ہو چکا ہے کہ اب لوگ الیکٹرونک میں مصروف رہتے ہیں اور اگر زحمت گوارہ کر بھی لیں تو صرف پی ڈی ایف کی صورت میں اپنی پسند کا کوئی ناول ڈاؤنلوڈ کرلیتے ہیں کہ کتاب لینے کی زحمت کون گورا کرے کہ یہ فیشن نہیں آج کے دور کا۔ جہاں نا قدرے لوگ ہوتے ہیں وہاں قدر کرنے والے بھی کچھ مل ہی جاتے ہیں جو آج کے دور میں بھی کتابوں کے پڑھنے کے شوقین ہیں اور باقاعدہ لائبریری جانے کے متمنی ہیں لیکن ملک کے بیشتر لوگوں نے کتابوں کو خیر باد کہہ دیا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے دور میں کتابیں کون پڑھے کہ، کتابوں کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔۔۔ (فاطمہ یاسین)۔۔