تحریر: علی معین نوازش۔۔
حکومت نے سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کے گرد گھیرا مزید تنگ کرنے کیلئے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ(PECA 2016)میں موجود ڈیفامیشن (کسی شخص کے بارے میں غلط بیانات دینے کا عمل جس سے اس شخص کی ساکھ کو نقصان پہنچے) سیکشن میں ترامیم کی ہیں۔ اِن ترامیم کا لب لباب یہ ہے کہ پہلے یہ قانون صرف کسی شخصیت کو بدنام کرنے پر لاگو ہوتا تھا لیکن اب یہ کسی کمپنی یا ادارے کو بدنام کرنے پر بھی لاگو ہوگا۔ اِسی قانون میں ایک ترمیم یہ بھی کی گئی ہے کہ اب کسی بھی عوامی نمائندے یا سرکاری ملازم کیلئے اپنا درخواست گزار خود ہونا لازم نہیں ہے بلکہ کوئی بھی شخص اُس کا درخواست گزار بن سکتا ہے۔
اب اِس قانون پر عملدرآمد کرتے ہوئے فوری گرفتاری بھی عمل میں لائی جا سکتی ہے، جس کی ضمانت بھی ممکن نہیں اور فریقین کے مابین صلح کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ اِس قانون کے تحت ملنے والی سزا کو بھی اب تین سے پانچ سال کردیا گیا ہے اور وہ میڈیا جو پہلے صرف پیمرا کے زیرِ عتاب آتا تھا اور اِس قانون سے آزاد تھا، اب اُس میڈیا پر بھی یہ قانون لاگو ہوگا۔ یعنی اب اُن میڈیا ہاؤسز کیخلاف پیمرا اور اِس قانون دونوں کے تحت کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ عدالتوں کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ اِس قانون کے تحت ہونے والے مقدمات کے فیصلے چھ ماہ کے اندر اندر سنا دیں۔ اِس ترمیم کے تناظر میں، جو آرڈی ننس کے ذریعے نافذ کی گئی ہے اور ابھی تک پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہوئی، شاید حکومت کے ہاتھ ایک ایسا ہتھیار لگ گیا ہے جو ڈیجیٹل حقوق کیلئے کام کرنے والوں اور سوشل میڈیا کمپنیوں کے خیال میں آزادیٔ اظہارِ رائے اور جمہوریت دونوں کیلئے خطرہ ہے کیونکہ اِس کا غلط استعمال بہت آسان ہے۔
سوشل میڈیا کے حوالے سے قانون سازی کی جانی چاہیے ، یہ ایک اچھا عمل ہے کہ اِس سے سوشل میڈیا کے غلط استعمال اور سائبر جرائم کو روکا جاسکتا ہے مگر اِس ضمن میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اِس قانون کے نافذ ہونے کی صورت میں تنقید، اختلافِ رائے اور ڈیفامیشن میں فرق لازمی کیا جانا چاہیے کیونکہ ماضی میں یہ فرق روا نہیں رکھا گیا۔جب انگریز برصغیر پر قابض تھا تو ایک وقت تک یہاں یہ قانون نافذ تھا کہ انگریز افسر کے سامنے کرسی پر بیٹھنے کیلئے مقامی لوگوں کو خصوصی اجازت نامے کی ضرورت ہوتی ہے ، اجازت کے بغیر اُنہیں کرسی پر بیٹھنے کی ممانعت تھی۔ یہ قانون تو موجود تھا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا قانون بنانے کے پیچھے کیا وجوہات تھیں اور اِس کے ذریعے کس مقصد کا حاصل کیا جانا مقصود تھا؟
پاکستان کا شہری تو یہ سوچ کر بھی حیران ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں ناانصافی کا یہ عالم ہے کہ یہاں عثمان مرزا اور نور مقدم جیسے ہائی پروفائل کیسوں میں بھی فوری انصاف فراہم نہیں کیا جاتا۔ ریپ، قتل، فراڈ اور دیگر بڑے جرائم کا ذکر کیا کرنا کہ اِن جرائم کے کیس سالہا سال عدالتوں میں شنوائی کے منتظر رہتے ہیں ، ہماری حکومت اِن کیسوں کے فیصلے بھی چھ ماہ میں سنانے کی پابندی کیوں نہیں لگاتی؟ لیکن ہمارے ملک میں عام آدمی کے مسائل کب حکومت کی ترجیح رہے ہیں؟
ہمارے ہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں جب بھی مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کو زیرِ بحث لایاجاتا ہے تو پالیسی ساز تھِنک ٹینکس کے اندر یہی بات کی جاتی ہے کہ سعودی عرب، سنگاپور یا چین میں تو کوئی آزادیٔ صحافت یا آزادیٔ اظہارِ رائے موجود نہیں ہے اور وہاں اختلافِ رائے اور تنقید کو بھی قبول نہیں کیا جاتا لیکن وہ ممالک کتنی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔بظاہر لگتا یوں ہے کہ اِن چیزوں کو دبانے سے ترقی ہوگی جبکہ اُن ممالک میں جہاں شروع سے اِن چیزوں کو دبایا گیا ہے، ترقی ہو رہی ہے۔یعنی آزادیٔ اظہارِ رائے کا نہ ہونا اُن کی ترقی کا ضامن نہیں ہے ۔اور پھر اُن ممالک کے عوام کا اپنی حکومتوں کیساتھ یہ معاہدہ اِس لیے بھی کامیاب ہے کہ وہاں کی حکومتیں اپنے عوام کو براہِ راست خوشحال کر رہی ہیں، اُنہیں غربت سے نکال کر متوسط طبقہ بنا رہی ہیں، اِس لیے وہ ایسی پابندیاں برداشت کر لیتے ہیں لیکن اِس کے باوجود اُن ممالک میں بھی کہیں نہ کہیں تنقیداور اختلافِ رائے کی گنجائش ضرور موجود ہے۔
پاکستان ، جہاں کے عوام اِس وقت شدید معاشی مشکلات سے دوچار ہیں، وہاں یہ چاہنا کہ کوئی چوں تک نہ کرے، غلط ہے۔ لوگ کب تک ایسی باتیں سنیں اور برداشت کریں گے کہ امریکہ اور کینیڈا جیسے ملکوں میں بھی مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے جبکہ اُن ممالک میں فی کس سالانہ آمدنی پاکستان میں فی کس سالانہ آمدنی سے کئی گنا زیادہ ہے۔ 2020میں جب یہ راگ بار بار الاپا جاتا تھا کہ پاکستان میں جتنی آزادیٔ اظہارِ رائے میسر ہے وہ شاید دنیا کے کسی اور ملک میں میسر نہیں لیکن تب پاکستان 180ممالک کی فہرست میں آزادیٔ اظہارِ رائے کے حوالے سے 145ویں نمبر پر تھا۔
زرا سوچیے کہ اگر کسی نے مبنی بر حقائق بات کہی ہے اور اُسے عزت اُچھالنے کا نام دے کر ، یا ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح سچی خبر کو فیک نیوز قرار دے کر ، اُس شخص کے خلاف شکایت درج کرکے جیل بھیج دیا جاتا ہے، اُس کی ضمانت تک قبول نہیں کی جاتی اور عدالت کے فیصلے تک اُسے چھ ماہ جیل میں رکھا جاتا ہے ، چھ ماہ بعد وہ شخص اگر باعزت بری ہوجاتا ہے تو جیل گزرا ہوا اُس کا وقت کیسے واپس آئے گا؟ اِس دوران اُس پر اور اُس کے اہلِ خانہ پر جو مشکل گزرے گی اُس کا کیا ہوگا؟ یہ رجحان ایک نئی قسم کے سیلف سنسر شپ کو جنم دے گا ، جو ملک میں جمہوریت کے مستقبل کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔پھر کتنے ہی افراد اِس قانون اِس شکل کو ذاتی عناد اور دشمنیوں کیلئے بھی استعمال کریں گے۔
اِس قانون سازی کا سارا ملبہ پی ٹی آئی کی حکومت پر ڈالنا بھی مناسب نہیں۔ ہماری سیاسی پارٹیوں کی ہمیشہ سے یہ روش رہی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے پیروں پر بلکہ جمہوری نظام پر بھی ایسی کلہاڑیاں مارتے آئے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے یہی کام 2016میں (PECA)کا قانون پاس کے کیا تھا ، تب اِس قانون پر سب سے زیادہ تنقید عمران خان، شیریں مزاری اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنمائوں نے کی تھی لیکن چونکہ یہ قانون پارلیمنٹ کے ذریعے لایا جا رہا تھا توپارلیمنٹ میں اِس کی بہتر شکل نکل کر سامنے آئی۔ آہ! یادِ ماضی عذاب ہے یارب۔ اب پی ٹی آئی وہی کام کر رہی ہے جو اُس وقت (ن) لیگ نے کرنے کی کوشش کی تھی۔ اُس وقت سمجھانے والوں نے (ن)لیگ کو یہی سمجھایا تھا کہ کل کو یہی چیزیں آپ کے خلاف استعمال ہوں گی۔(ن) لیگ کے دور میں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا وِنگ کے کچھ لوگوں کے خلاف کارروائی اور گرفتاریاں کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ عین ممکن ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے اِس وقت اُٹھائے گئے اقدامات مستقبل میں اُسی کیخلاف استعمال ہوں گے۔ ایسا نہ ہو کہ آنے والے وقت میں پی ٹی آئی کے اپنے سوشل میڈیا وِنگ کیخلاف سب سے زیادہ مقدمات بن رہے ہوں۔(بشکریہ جنگ)۔۔