تحریر: ناصر جمال
پرویز مشرف، سیاسی اجتماعات کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ نوابزادہ نصر اللہ خان شدید غصے میں تھے۔ کسی عقلمند نے کہا کہ بابائے جمہوریت شدید اشتعال میں ہیں۔ جلسے کی اجازت دے دیں۔ وگرنہ حالات خراب ہوجائیں گے۔ پرویزمشرف نے جی۔ ڈی۔ اے۔ کو موچی دروازے جلسے کی اجازت دے دی۔
مگر قلم کار آج کے حالات دیکھتا ہے تو ہنستا ہے۔ پرویز مشرف اور نوابزادہ کو ”سادے لوگوں“ سے تعبیر کرتا ہے۔ وہ کچھ پردے اور بھرم لیکر چل رہے تھے۔ اب سب کچھ ننگا نہیں ، الف ننگا ماحول ہے۔مجال ہے جو کسی کے کان پر جوں بھی رینگتی ہو۔ نہ کسی سیاست کو فرق پڑتا ہے۔ نہ ہی کسی سپہ سالار کو، نہ کسی بابو کے ضمیر پر بوجھ ہے اور نہ ہی کسی عوام کے، سب حال مست اور مال مست ہیں۔ سب ایک دوسرے کو دائو لگا رہے ہیں۔
مختار ملک یاد آئے۔ وہ کہا کرتے تھے۔ انگریزی’’دی‘‘ تے پنجابی دا، ’’دا‘‘ جتھے لگدا اے، لائی جا۔۔۔۔
آج ہر طرف یہی سماں ہے۔ گھٹن ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔ پہلے نیند اور خواب گھٹن سے آزاد تھے۔ یہ بھی حافظوں کے کمالات ہیں۔ ان کی تسبیحات ہیں اور مراقبے ہیں۔ جاگیں تو گھٹن ہے۔ سوئیں تو گھٹن ہے۔
وہ دور آگیا ہے کہ اب تو تازہ دودھ بھی عیاشی ہوگیا ہے۔ اے۔ سی۔ تو سپر لگژری ہے۔ بے حس عوام کو جلد ہی پتا چلنے والا ہے کہ دال، روٹی بھی عیاشی قرار پائے گی۔ شیخ کی طرح، گھی کے ڈبے کو دیکھ کر ہی، چوپڑی روٹیوں کے مزے لیے جائیں گے۔
بجلی، گیس پٹرول، سہولت کی بجائے، عذاب اور سزا بنادیئے گئے ہیں۔ ایک نیٹ کی عیاشی اور روزگار تھا۔ اب اُس پر خوفزدہ ’’ جنتا‘‘ سہمے سیاست دانوں اور بابووں کے ساتھ مل کرقدغنیں لگا رہی ہے۔ برادرم رئوف کلاسرہ کا کلپ دیکھا نہیں صرف پڑھا کہ ہمارے سپہ سالار تو اتنے سادہ ہیں۔ انھیں سپہ سالار بننے سے قبل سوشل میڈیا کا کچھ بھی نہیں پتہ تھا۔ یقین مانیئے ہنسی چھوٹ گئی۔ ففتھ جنریشن وار تو جنرل کیانی کے زمانے سے آئی۔ ایس۔ پی آر۔ کا ٹول رھا ہے۔ اس کے بعد راحیل شریف اور جنرل باجوہ کے نو سال ہیں۔ سپہ سالار بھی تو اُسی وقت ڈی۔ جی(آئی) تھے۔ اتنی بے خبری سن کر ہی ہنسی آتی ہے۔ جان کی امان پائوں تو عرض کروں۔ یا تو سپہ سالار بڑے بادشاہ ہیں۔ یا پھر رئوف کلاسرہ اس قوم کو واقعی بادشاہ سمجھتے ہیں۔ لگتا ہے۔ ہمارے دوست نے ’’فیڈنگ‘‘ اور خبر کا فرق ختم کردیا ہے۔یا پھر بڑے اینکر کی بڑی مجبوریاں ہوتی ہونگی۔ہم جیسے سڑک چھاپ صحافیوں کی اس کا اداراک کیسے ھو سکتا ہے۔
یہ الہامی کیفیت بھی تو ہوسکتی ہے۔ جو جنگ جیو گروپ کے سہیل وڑائچ سے لیکر قیوم صدیقی، انصار عباسی سے لیکر عمر چیمہ، صالح ظافر سے لیکر سلیم صافی تک اکثر پر طاری رہتی ہے۔
جنرل فیض کو تحویل میں لیکر مناسب کورٹ مارشل سے لیکر ڈپٹی سپرینٹنڈنٹ کو حراست میں لئے جانے کے واقعات، اس پر خواجہ آصف سے لیکر رانا ثناء اللہ اور صحافیوں کی انگڑائیاں، ایک ہی اسکرپٹ رائٹرز کا اسکرپٹ لگتا ہے۔
جن الزامات پر کورٹ مارشل ہونے جارہا ہے اس کے تحت تو کراچی، پنڈی لاہور میں بیس سالوں میں تعینات ہونے والے، تمام چاق و چوبند لوگوں کا کورٹ مارشل کرنا پڑے گا۔ سب لوگ گردن گردن تک، زمین کے قبضوں سےلیکر ’’بہت کچھ‘‘ میں دھنسے ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ گند، کراچی اس کے بعد، پنڈی پھرلاہور اور پھر دوسرےپرکشش مقامات ہیں۔ کراچی میں تو ابھی بھی پوری طاقت سے مسئلے چل رہے ہیں۔ کل ہی ایک دوست بتا رہے تھے کہ حاضر سروس والوں نے پرائیویٹ سیٹ، اپس بنائے ہوئے ہیں۔ویسے یہ کچھ نیا بھی نہیں ہے راؤ اسلم اور دوسرے سرپرست کردار ابھی بھی زندہ ہیں۔ کراچی میں اربوں نہیں، کھربوں کے مفادات ہیں۔ صرف ریتی، بحری اور واٹر ٹینکر کا مافیا، دس کھرب روپے سے زائد کا ہے۔ کاروباری لوگ خوفزدہ ہیں۔ اب تو عام آدمی بھی کہتا ہےکہ متحدہ کا سیکٹر انچارج، کم از کم تمیز سے تو بھتہ مانگتاتھا۔اس کے بعد، کوئی اور پرچی اور بندہ نہیں آتا تھا۔ اب تو بھتے ہی بھتے، پر چیاں ہی پرچیاں ہیں۔ ایک سیٹھ تو روپڑا۔ کہنے لگا کہ لوگ تو اب نجی محفلوں میں نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم وہاں پر بھی ’’بھائیوں‘‘ کی حمایت کرتے ہیں۔اس کے باوجود میری زمین پر سسٹم، دوستوں کی مہربانی سے آکر بیٹھ گیا ہے۔ فائونڈیشن کی زمین ہے۔ یتیموں، مسکینوں کا مال ہے۔ میں کسی کے سامنے جاکر روئوں۔ ریٹائرڈ لوگ، حاضر سروس لوگوں کی پشت پناہی پر، بغیر کسی کاغذ پر، ادارے کا نام استعمال کررہے ہیں۔ دیوار پر ادارے کا نام تک لکھ دیا۔ ہم تو وہاں پھنس گئے ہیں کہ بدعا نہیں دے سکتے۔ صبر اورآنسوئوں کے گھونٹ پی رہے ہیں۔ جس سے مدد کی درخواست کرو۔ ہاتھ اٹھا لیتا ہے۔ پرائیویٹ گاڑیوں پر یونیفارم میں لوگ آئے اور قبضہ کرلیا۔ پچیس سال سے زمین ہمارے پاس تھی۔ چار دیواری ہم نے بنائی۔ سپریم کورٹ نے 2011 سے لیز پر پابندی لگا رکھی ہے۔ آپ کے پاس کہاں سے کاغذ آگئے۔سندھ ہائی کورٹ نے اسٹے آرڈر دیا ہے اس کے باوجود زبردستی قبضہ کر لیا۔اج ہم کس کی ماں کو ماں کہیں۔کس سے جا کے انصاف مانگیں۔دل خون کے انسو رو رہا ہے۔کیا ہمیں پیغام دیا جا رہا ہے کہ ہم بھی ہزاروں لوگوں کا روزگار ختم کر کے بیرون ملک چلے جائیں۔
آپ کراچی میں جائیں۔ جابجا،ایسی کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔
قلم کار ہنستا ہے۔
اس سرزمین کے لئے پندرہ لاکھ سے زائد لوگ کٹوا دیئے۔ مائوں، بہنوں بیٹیوں نے کنوئوں میں چھلانگیں لگا دیں۔ کئی نے پیٹ میں خنجر گھونپ لئے۔ سب کچھ لٹا دیا۔ ہزاروں مائیں، بہنیں، بیٹیاں، سکھوں اور ہندوئوں کے گھر میں، اُن کے بچے جن رہی ہیں۔آج اُسی سرزمین پر زمینوں پر قبضے جاری ہیں۔ قبضے ماشاء اللہ سرکار کی سرپرستی میں ہورہے ہیں۔ بابوئوں اور پولیس کے بعد، بات محافظوں تک جاپہنچے تو پیچھے کیا بچتا ہے۔ اور بات پنڈی کے بڑوں کی سرپرستی تک جاپہنچتے تو دکھ، روح تک در آتا ہے۔
یقین ہی نہیں آتا۔ محافظ بھی اس سطح پر آگئے ہیں۔ ایک ریٹائرڈ لوگوں کا مافیا ہے۔ جو حاضر سروس لوگوں کے ساتھ مل کر، پہلے زمینیں تلاش کرتا ہے۔ پھرمقامی سسٹم کے ساتھ مل کر زور زبردستی پر مظلوم اور بے بس لوگوں کی زمینوں اور جائیدادوں پر قابض ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی زیادہ شور مچائے تو پولیس علاج کے لئے ہے۔ اور اگر کوئی اوپر تک پہنچ بھی جائے تو اُسے، متعلقہ لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کا آپشن دیا جاتا ہے۔ جہاں لاٹھیوں کے گز ، کوڑیوں کے بھائو، احسان چڑھا کر مال خرید لیا جاتا ہے۔جنرل کیانی کے بھائی کا ایک بیج میٹ ایسے ہی واردات سناتے ہوئے رو پڑا۔کہا کہ میں نے کہا یار کیانی یہ میری بہن کا پلاٹ ہے۔ بیج میٹ بھائی نے کہا کہ مجھے سستے میں دے دو ۔شکر کرو میں تمہیں کچھ تو پیسے دے رہا ہوں۔
عوام کے ہاتھ، سوشل میڈیا کی شکل میں ایک ’’ٹول‘‘ آیا تھا۔ سیاسیوں نے ، اُس ٹول کو بھی چھین لیا ہے۔ سیاسیے، ایک دوسرے سے خوفزدہ تھے۔ انھوں نے بھائی لوگوں کو بھی ڈرا دیا۔
فائر وال لگائی جارہی ہے۔ نیٹ کو چیتے کی بجائے کینچوا بنا دیا گیا ہے۔ پاکستانی بچے ساڑھے تین ارب ڈالرز یہاں سے کام کرکے کما رہے تھے۔ آن لائن کام، اب ہمارے بچوں کے ہاتھوں سے نکل کر دوسرے ملکوں جانا شروع ہوگیا ہے۔ تباہ حال معیشت اور بے روزگاری میں اور خوفناک اضافہ ہوگا۔آخر، ہم کن عقلمندوں کے ہاتھ چڑھ گئے ہیں۔ پنجاب کی آئرن لیڈی نے، سوشل میڈیا سے گھبرا کر، میڈیا کے گلے میں شکنجہ کس دیا ہے۔ ڈریکونین لاء متعارف کروایا ہے۔
کتنی عجیب بات ہے ، سوشل میڈیا آنے سے پہلے بھی، ایک نسل، مجھ سمیت اداروں، اسلامی تشخص اور ملک کی نظریاتی سرحدوں کا دفاع کرتی تھی۔ اب بھی کرتی ہے۔ مگر پتا نہیں وہ کون لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں حوالدار، صوبیدار اور میجر یہ کام زیادہ احسن طریقے سے کرسکتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ سب بدترین شکست سے دوچار ہوئے ہیں۔ فائر وال، بدترین شکست کا اعتراف ہے۔
آج، جنرل کیانی، راحیل شریف، باجوہ، حافظ صاحب اور پورا آئی۔ ایس۔ پی۔ آر بمعہ عمران خان، نواز شریف اور زرداری کے بتا سکتا ہے کہ مین سٹریم میڈیا کو کنٹرولڈ میڈیا میں تبدیل کرکے آپ نے کونسی کامیابی حاصل کی ہے۔
عمران خان میڈیا کی تباہی کا سب سے بڑا ذمہ دار ہے۔ فواد چوہدری،شبلی فراز، برابر کے شریک ہیں۔ آپ نے ہزاروں لوگوں کو بے روزگار کیا۔ میڈیا ہائوسز کا گلا دبایا۔ فیئر کی بجائے کنٹرولڈ پالیسی لیکر آئے۔ سوشل میڈیا کی صورت میں شُتر بے مہار سوشل میڈیا کا جن کھڑا کردیا۔ اس سے مین سٹریم میڈیا کو ڈرا رہے تھے۔خود پر بات آئی تو اس کی مخالفت کی۔ یہی ابصار عالم تھا جو اطلاعات و نشریات کی کمیٹی میں وزارت کی مرضی کے برعکس موجودہ ڈریکونین لاز کا مسودہ لیکر گیا تھا۔ مریم اورنگزیب اور سردار احمد نواز سکھیرا زندہ ہیں۔ پوچھ لیں۔ آج وہ آزادی صحافت کا ہیرو بنا ہوا ہے۔حالانکہ یہ صحافیوں کا میر جعفر اور میر صادق ہے۔
قلم کار نے اس پر مسلسل لکھا ہے۔ مین سٹریم میڈیا کی تباہی کی قیمت ریاست اور عوام ادا کریں گے۔
میڈیا کا چینی ماڈل، پاکستان میں رائج کرنے کے خوفناک نقصانات ہونگے۔ ڈریں اس وقت سے جب مودی آپ پر حملہ کردے۔ کیا اُس وقت کے لئے کوئی معتبر آواز بچا کررکھی ہے۔
ڈریں، اس وقت سے، جب یہاں بنگلہ دیش والی لہر آجائے۔ عوام کس آواز پر اعتبار کریں گے۔
آپ سب سے بہتر تو پرویز مشرف ہی تھا۔ اس نے تنقید برداشت کی محمد علی درانی اور شیخ رشید جیسوں کی باتوں میں آکر میڈیا پر پابندی لگانے کی بجائے اور تنقید برداشت کرلیتا تو کچھ بھی نہیں ہونا تھا۔ کراس میڈیا کا تحفہ، شیخ، درانی کا میڈیا سیٹھوں کے ساتھ کارٹل کا نتیجہ تھا۔ اس نے میڈیا کو برباد کردیا۔ آج بھی اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ٹی۔ وی۔ سوشل میڈیا اور پرنٹ میں، کراس میڈیا نہیں ہونا چاہئے۔ اس سے جہاں مناپلی کا خاتمہ ہوگا۔ وہیں پر کوالٹی کونٹینٹ اور روزگار میں اضافہ ہوگا۔ احساس ذمہ داری بڑھے گا۔ آپ تمام ہتھیار، میر شکیل الرحمٰن اور ان جیسے دوسرے لوگوں کے ہاتھ میں ایک ساتھ کیسے دے سکتے ہیں۔
باقی رہ گیا۔ آئی۔ ایس۔ پی۔ آر اور اس کی میڈیا مینجمنٹ، آپ بیچ میں سے بندوق ہٹائیں۔ آپ کے، ان اعلی منیجرز کے جسم پر پروفیشنل صحافی’’چڈی‘‘ بھی نہیں رہنے دیں گے۔
آپ میڈیا سے خوفزادہ ہونے کی بجائے یہاں پر سیٹھوں کی اجارہ داری ختم کریں۔ لوگوں کو بولنے دیں۔کیا امریکہ اور یورپ ختم ہو چکے ہیں۔؟ آج سب بے نقاب ہوچکے ہیں۔ صرف آپ کو پتا نہیں چل رہا۔
عمران ریاض، سے لیکر صدیق جان تک تمام یوٹیوبرز، صرف ایک مخصوص طبقہ کے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ انصار عباسی، صافی، صالح ظافر وڑائچ، چیمے، قیوم صدیقی، یہ سب پٹے ہوئے مہرے ہیں۔ ان میں صرف وہ بتائیں، جو غیر جانبدار لوگوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔ آپ کچھ بھی کہیں۔ ایاز امیر صحافی ہے۔ حامد میر، نجم سیٹھی ڈنڈی مارتے ہیں تو پکڑے جاتے ہیں۔
افواج پاکستان کا امیج، اس کے غیر جانبدار اقدامات نے بنانا ہے۔ ریکارڈنگز، پے رول، وڈیوز سے امیج نہیں بنا کرتے۔ آپ نیک نیتی سے اقدامات لیں۔ سب مجبور ہوجائیں گے۔ آپ اس گندسے باہر نکلیں۔ اپنے کپڑوں پر لگے داغ، صاف کرنے کے طریقے دوسرے ہیں۔گرین ٹی وی اس کا علاج نہیں ہے۔ ادارے کا متحد رہنا، ریاست اور ریاست کے باسیوں کے لئے اہم ہے۔ چند ناعاقبت اندیش، سیاستدانوں، بابوئوں، سیٹھوں اور ”رینٹ اے قلم کاروں“ کی باتوں میں آکر، آپ لوگوں کے سامنے آنے کی غلطی نہ کریں۔ واپسی ہی میں عزت اور خیر ہے۔۔(ناصر جمال)۔۔
(اس تحریرکے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ یہ تحریر صرف اپنے قارئین کی آگہی کے لئے شیئر کی گئی ہے ۔علی عمران جونیئر)۔۔