faislay ke baad

میڈیا کے کیمرے

تحریر: خورشید ندیم۔۔

پٹرول کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو مہنگائی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ بات قابلِ فہم ہے۔ پٹرول کی قیمتیں کم ہوتی ہیں تو مہنگائی کم کیوں نہیں ہوتی؟ مجھے آج تک اس سوال کا جواب نہیں مل سکا۔

بجٹ کا اعلان جون کے وسط تک ہو جاتا ہے۔ اس کا اطلاق لیکن یکم جولائی سے ہوتا ہے۔ واقعہ مگر یہ ہے کہ جیسے ہی بجٹ کا اعلان ہوتا ہے‘ اشیائے صرف کے نرخ بڑھ جاتے ہیں۔ بجٹ ہم جانتے ہیں کہ اس قت تک محض ایک تجویز ہے‘ جب تک قومی اسمبلی اس کی منظوری نہ دے۔ یہاں مگر اس کا انتظار نہیں کیا جاتا۔ بجٹ کا اعلان ہوتا ہے تو تاجر خود ہی نئے ٹیکس اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں شامل کر لیتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ تاجر کا لالچ؟ انتظامیہ کی نااہلی؟ عوام کی بے حسی؟

میرا خیال ہے تینوں اسباب کارفرما ہیں۔ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ انتظامیہ اور حکومت۔ عام استعمال کی اشیا دو طرح کی ہیں۔ ایک وہ جو قومی سطح کی کمپنیاں فراہم کرتی ہیں۔ ان کی قیمتیں ان پر لکھی ہوتی ہیں اور یہ پاکستان بھر میں ایک ہی ہوتی ہیں۔ دوسری وہ جن کی قیمتوں کا تعین مقامی مارکیٹ کرتی ہے۔ جیسے پھل‘ جیسے سبزیاں۔ پٹرول کی قیمت میں کمی کا دونوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اگر قومی سطح کی کمپنیاں اس اثر کو قبول نہیں کرتیں تو اس کی ذمہ داری مرکزی حکومت پر ہے۔ اس کا کوئی تعلق مقامی انتظامیہ سے نہیں ہے۔

کیا ایسا نظام وضع کرنا ممکن نہیں کہ پٹرول کی قیمتوں میں کمی بیشی کے ساتھ خود بخود قیمتیں کم اور زیادہ ہو جائیں؟ اگر ہے تو اس پر عمل در آمد کرانا کس کی ذمہ داری ہے؟ ظاہر ہے کہ حکومت کے سوا کسی کا نام نہیں لیا جا سکتا۔ تاجر کی لالچ بھی اس کا سبب ہے۔ قانون کے ساتھ انسان کو صحیح راستے پر رکھنے والی ایک قوت‘ خوفِ خدا بھی ہے۔ کیا تاجر تنظیمیں کسی اخلاقی ضابطے کی پابند نہیں؟ فرض کیجیے حکومت کوتاہی یا نااہلی کے سبب اپنے فرائض کی ادائیگی میں غفلت کا مظاہرہ کرتی ہے تو یہ تنظیمیں کیا کسی اخلاقی ضابطے کی پابند نہیں؟ حج اور عمروں کی تعداد شمار کریں تو یہ تاجر سب سے آگے ہیں لیکن ناجائز منافع خوری اور قانون کی خلاف ورزی کرتے وقت‘ انہیں خدا یاد نہیں رہتا۔

سماج کا استحکام تین طرح سے ہوتا ہے۔ ایک اس کی داخلی اخلاقی قوت سے‘ دوسرا قانون کے سخت نفاذ سے۔ تیسرا عوام کے دباؤ سے۔ مسلمان معاشرے میں اخلاقی قوت کی بنیاد خدا کے سامنے جوابدہی کا احساس ہے۔ یہ احساس بھی سماج کی دینی تفہیم پر منحصر ہے۔ عوام نے دین کا مقصد یہ سمجھا ہے کہ عمرہ کرنے یا محلے کی مسجد کا مینار تعمیر کرانے کے بعد‘ ان کی دینی ذمہ داری تمام ہو گئی ہے۔ انہوں نے اپنی مغفرت کا انتظام کر لیا ہے۔ اب تجارت کے معاملات میں‘ وہ آزاد ہیں کہ من مانی کریں۔ یہ تصورِ دین ان دینی نمائندوں نے دیا ہے جو سماج میں دینی دعوت کے منصب پر فائز ہیں اور ہر جمعے کو عوام کو براہِ راست دین سمجھاتے ہیں۔

اسی طرح علما‘ تاجر اور حکومت مل کر مہنگائی کا سبب بنتے ہیں۔ سب سے بڑی ذمہ داری یقینا حکومت کی ہے۔ وہ کیوں ایسا نظام نہیں بنا سکی جو اس بات کی ضمانت بنے کہ پٹرول کی قیمت کم ہونے کے ساتھ‘ بازار میں بھی اشیائے صرف کی قیمتیں بھی کم ہو جائیں؟ قوتِ نافذہ بھی حکومت کے پاس ہے۔ اگر نو مئی کے واقعات میں ملوث لوگ‘ قانون کی خلاف ورزی کے سبب سخت سزا کے مستحق ہیں تو عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیسنے والوں پر قانون اس سختی کے ساتھ کیوں نافذ نہیں ہوتا؟

حکومت ہی کی ایک صورت مقامی انتظامیہ بھی ہے۔ مجھے بہت کم اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ مقامی انتظامیہ نام کی کوئی شے بھی یہاں پائی جاتی ہے۔ ہر پھل فروش اپنی مرضی کے دام طلب کرتا ہے۔ مارکیٹ کی اپنی حرکیات اگر اس پر کوئی قدغن نہ لگائیں تو اسے انتظامیہ کا کوئی ڈر نہیں۔ وہ ہر طرح کے خوف سے بے نیاز ہو کرعوام کو لوٹنے میں اپنا حصہ ڈالتا ہے اور یہ جواز پیش کرتا ہے کہ اس کو بھی اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہے۔

اب آئیے عوام کی طرف۔ جوعوام ‘ہم کوئی غلام ہیں؟‘ کے نعرے پر ہوش و خرد سے بیگانہ ہو جاتے ہیں‘ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ کتنے مقامی آقا ہیں جنہوں نے انہیں صدیوں سے اپنی غلامی میں لے رکھا ہے۔ کتنے ہیں جو خانقاہ و عبادت گاہ کے نام پر خدا کے خود ساختہ نمائندے بن کر انہیں لوٹ رہے ہیں۔ کتنے ہیں جو روایت اور رسموں کے نام پر ان کے گلے کا طوق بنے ہوئے ہیں؟ تاجر کیسے ان کی جیب پر ڈاکا ڈالتے ہیں؟ امریکہ کی غلامی سے آزادی کے علمبردار ان مقامی آقاؤں کے خلاف کبھی بغاوت نہیں کرتے۔

دنیا بھر میں صارفین کی انجمنیں قائم ہیں۔ سول سوسائٹی مؤثر ہے اور عوام کے حقوق کی حفاظت کے لیے کمر بستہ رہتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں میں بھی یہ شعور ہوتا ہے کہ وہ عوام کو استحصالی طبقات کے ظلم سے محفوظ رکھیں۔ پاکستان کے عوام کی ان خطوط پر کوئی تربیت نہیں ہوئی۔ سیاسی جماعتوں نے بھی عوام کی شعوری سطح کو بلند کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ جن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ‘سیاسی شعور‘ دیا‘ ان کے دیے ہوئے شعور کے مظاہرے بھی ہم نے دیکھ لیے۔

مہنگائی کے چند اسباب تو وہ ہیں جن کو تعلق حکومتی پالیسیوں کے ساتھ ہے۔ جیسے ٹیکس کا نظام۔ کچھ کا تعلق بین الاقوامی حالات سے ہے۔ جیسے کوئی وبا پھوٹ پڑی یا عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت بڑھ گئی یا کہیں جنگ چھڑ گئی۔ میں یہاں ان کا ذکر نہیں کر رہا۔ میں تو ان اسباب کو سامنے لا رہے ہوں جو مقامی ہیں۔ جو ہماری نا اہلی‘ بے حسی یا گروہی مفاد سے پیدا ہوئے اور جن کا سدباب ہمارے ہاتھ میں ہے۔ آئی ایم ایف حکومت کے قابو میں نہیں مگر کیا وہ تاجر بھی اس کی دسترس سے باہر ہیں جو پٹرول کی قیمت بڑھنے کے بعد حکومت سے پوچھے بغیر اپنی مصنوعات کے نرخ بڑھا دیتے ہیں اور کم ہونے پر بھی انہیں بر قرار رکھتے ہیں۔ حکومت اگر کچھ بھی سنجیدہ ہو تو مہنگائی میں ایک حد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں گورننس کے مسائل بہت گمبھیر ہیں۔ انتظامیہ کا بڑا حصہ بیوروکریسی پر مشتمل ہے۔ بیورو کریسی نے کبھی عوام سے اپنا تعلق قائم نہیں رکھا۔ یہ عوام کے منتخب نمائندے ہیں جن کا یہ کام ہے کہ وہ ان سے عوام کی بھلائی میں کام لیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اگر خدا خوفی رکھنے والا کوئی فرد کہیں پولیس کا افسر ہو یا ڈی سی وغیرہ کے منصب پر فائز ہو تو متعلقہ علاقے میں بہتری آ جاتی ہے۔ میرے ایک دوست اے سی اور ڈی سی رہ چکے۔ ان کا کہنا ہے کہ بارشوں کے موسم سے پہلے شہروں کے نالوں کی صفائی انتظامیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس کے لیے اوپر سے احکام جاری کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر اے سی ذمہ دار ہو تو وہ شہر کو بارشوں کے ممکنہ نقصانات سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

مہنگائی کا خاتمہ اس وقت حکومت اور سماج کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ہمیں اس میں اتنی کمی تو لانی چاہیے جو ہمارے بس میں ہے۔ اگر تاجر‘ انتظامیہ اور سول سوسائٹی بیدار ہو جائیں تو ہم اس مہنگائی کا کسی حد تک مداوا کر سکتے ہیں۔ میڈیا کے کیمرے کاش ناجائز منافع خوروں تک بھی پہنچیں جو بیک وقت ریاست اور سماج کا ستون ہونے کا دعوے دار ہے۔(بشکریہ دنیانیوز)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں