تحریر: محمد نوازطاہر۔۔
یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ چھوٹے چھوٹے اختلافِ رائے پر ٹکروں میں بٹنے والی پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ( پی ایف یو جے) کے مختلف دھڑے لاہور میں پریس کلب کی چھتری تلے یک نکای ایجنڈے کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے ۔ پانی سے خائف یا کسی اور وجہ سے کناروں اور ریت پر تیرنے والوں نے گہرے پانی میں اترنے کیلئے ایک دوسرے کا کندھا تھام لیا ۔ یہ سہانی صبح گذشتہ ہفتے طلوع ہوئی تھی مگر کچھ دھندلی تھی اور کچھ تو دھویں سے دھندلانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اب مطلع صاف ہے ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ پریس کلب سیاسی و تحریکی ادارہ نہیں ، سماجی ادارہ ہے ، کارکنوں کے حقوق کی جنگ لڑنا پی ایف یو جے اور ایپنک کی ذمہ داری ہے ، اس حقیقت سے کسی کو انکار بھی نہیں کہ گروپ بندی کی وجہ سے یونین گروپوں میں بٹی تو سر پر لٹکتی تلوار نے سب کو ایک جگہ کھڑا کردیا پریس کلب نے چھتری فراہم کردی اور اب سبھی مل کر مشترکہ ایکشن کمیٹی کی قیادت میں جدوجہد کرنے اور مثبت نتائج کیلئے پُر امید ہیں ۔
پہلی میٹنگ میں یہ رائے کھل کر سامنے آگئی تھی کہ کارکن اب کسی صورت بھی میڈیا مالکان اور حکومتی حلقوں میں جاری اختلافِ رائے میں پاسرتی نہیں بنیں گے بلکہ صرف اور صرف کارکنوں کے مفادات کا تحفظ کریں گے پھر بھی کمیٹی کو یہ اختیار دینے کی بات کی گئی کہ اگر کمیٹی محسوس کرتی ہے کہ میڈیا مالکان سے مذاکرات سے مسئلہ حل ہوسکتا ہے تو یہ آپشن استعمال کرنے میں کیا مضائقہ ہے ، غالباً کمیٹی میڈیا مالکان کو مراسلہ لکھ کر اپنا فرض پورا کرچکی ہے یا یہ خط پائپ لائن میں ہے ، اسی دوران کارکنوں کی برطرفیاں رکنے کا نام نہیں لے رہیں اور ہر لمحے کسی نہ کسی ادارے میں کارکنوں کے معاشی قتل کیلئے فہرستیں بننے کی باتیں سنائی دیتی ہیں ۔ ان حالات میں مشترکہ کمیٹی راست اقدام کا لائحہ عمل نہ بناتی تو اس پر سب سے پہلا ’بم ‘میڈیامالکان سے وفاداری اور کارکنوں سے غداری کا پھٹتا۔ اس کی پن کسی طرف سے بھی نکل سکتی تھی کیونکہ یہ بم بیچ چوراہے پڑا ہے جو سوچ سمجھ کر دشمن پر بھی مارا جاسکتا ہے اور راہگیروں کو محفوط رکھنے کیلئے پرے بھی ہٹایا جاسکتا ہے اور مزید انسانیت جاگے تو انسانیت کیلئے مہلک ہونے کی بنا پر اسے ناکارہ بھی بنایا جاسکیا لیکن اس کیلئے شعور اور کمٹمنٹ کی ضرورت ہے ، اسلئے کسی پر بلا تحقیق اور محض اپنے اندازوں سے غداری کا الزام لگادینا مناسب نہیں البتہ کسی کی’ لائن ‘ پر ایسا بم پھوڑنا مقصود ہو تو جواز کی ضرورت ہی نہیں ، یہ لائن اب کے بار کسی کو پکڑنے جرات نہیں ہوگی ، لاشعوری غلطی ہوجائے الگ بات ہے ، ایسی غلطی مجموعی اتفاق کونقصان نہیں پہنچائے گی ۔
مشترکہ کمیٹی نے تحریک کا آغاز بائیس اکتوبر کو مال روڈ پر پنجاب اسمبلی کے سامنے پر امن مظاہرے سے کر نے کا اعلان کیا ، اعلان کے مطابق روازانہ کی بنیاد پر پریس کلب کے اُسی لان میں کارکن اپنے حق کیلئے کیمپ لگائیں گے جہاں میڈیا مالکان کیلئے لگائے جاتے رہے ہیں ۔کارکنوں کو اس میں بھر پور شرکت کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنے حق کا تحقظ کرسکیں اور کارکنوں کو حکومت سے لڑوانے کے میڈیا مالکان کے اس منصوبے اور سازش کا شکار نہ ہوں جس میں اشتہارات اور دیگر مراعات جیسے مقاصد حاصل کرنا ہے ۔ کیا میڈیا مالکان نے ماضی میں ویج ایوارڈ دینے کے وعدے پر اخبارات کے کالم کا سئز کم نہیں کرچکے ، ؟ کئی مالکان نے حکومت سے ایڈوانس نہیں لئے ؟ ویج ایوارڈ کس نے دیا ؟ ویج ایوارڈ تو درکنار بروقت تنخواہ کی ادائیگی بھی بند کردی گئی ۔ اب کارکنوں کو مالکان سپریم کورٹ اور حکومت سے لڑانا چاہتے ہیں ، ہماری حکومت سے جائز لڑائی اور مطالبہ ہے کہ وہ ملک کے قانون پر عملدرآمد کروائے ، ویج ایوارڈ نافذ کروائے اور اشتہارات تنخواہوں کی ویج ایوارڈ کے مطابق بروقت یقینی بنانے سے مشروط کرے ، جو ایسا نہیں کرتا اس ادارے کے اشتہارات مکمل طور پر بند کردے ،اس ادارے کے مالک اور اس کے خاص کارندوں کا بائیکاٹ کیا جائے اور ان کے زیلی کاروبار کو اشاعتی و نشریاتی ادارے کے ساتھ اٹیچ کیا جائے ، میڈیا مالکان کے اثاچوں کی نیب سے تحقیقات کروائی جائے اور یہ رپورٹ منظرِ عام پر لائی جائے کہ جو میڈیا مالکان یہ کہتے ہیں کہ اشتہارات کم ہیں ، اسلئے کارکنوں کی ڈاؤن سائزنگ مجبوری ہے ان کے بارے میں بتایا جائے کہ انہوں نے حکومت سے کتنا مال کمایا ؟جب صرف کمائی کررہے تھے اور ’’اپھل‘‘ کی کمائی بھی مل رہی تھی ،تب کارکنوں کو کیا دیا تھا ؟زیادہ تر مالکان تو انتہائی گھٹیا ذہنیت کے مالک ہیں جو ان کیلئے بھی رسوائی کا باعث ہیں جو اپنے کارکنوں کا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں ۔
میڈیا کارکن اس تحریک میں بھر پور اتحاد کا مظاہرہ کریں تاکہ حکومت اور میڈیا مالکان کی آنکھیں کھل جائیں ،کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم صرف اپنی ہی آنکھیں کھلی دیکھیں ؟ اور تحریک کی کامیابی کا خواب ( خدا )خواب ہی رہ جائے ۔۔ کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ کارکنوں نے اپنے عمل سے خود کرنا ہے ۔ بس اتنا ہے کہ آنکھیں سب ہی کھلی رکھیں ، کہیں سے اگر کتا کان کاٹ کر بھاگنے کی اطلاع ملے تو براہِ کرم ایک بار کان ضرور چیک کرلیں ، کتے کے پیچھے بعد میں بھاگیں ۔۔۔(محمد نوازطاہر)۔۔