alu timatar lelo sahafi lelo

میڈیا کارکنوںکی خود کشیاں

تحریر: محمد نواز طاہر۔۔

پاکستان سے باہر پاکستان میں صحافت کی آزادی پر حملوں ،قدغنوں پر سیمنار ، مذاکرے اور طویل تقریریں کرنے والے میڈیا مالکان ، ان کے نمائندوں اور صحافتی تنظیموں کی عالمی تنظیموں سے پاکستان میں آزادی اظہار رائے پر پابندیوں کےخلاف حمایت کی اپیلوں کے دوران کارکنوں کا معاشی قتل عام تو جاری تھا اب معاشی بدحالی کا سامنا کرنے والے میڈیا کارکنوں نے خود کشیاں بھی شروع کردی ہیں ، کراچی میں میڈیا کارکن فہیم مغل کی خود کشی سے دردِ دل رکھنے والوں پر میں لرزہ طاری کردیا ہے ، ہر طرف غم و غصے اور اضطراب کی لہر ہے ۔ پاکستان کے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پی ایف یو جے صر ف صحافت کی آزادی کے معاملے پر میڈیا مالکان کے ساتھ ایک پیج پر ہے لیکن کارکنوں کے معاشی اور قانونی حقوق پر اسی پیج پر معاملات طے کرنے میں گریزان یا بے بس ہے جس کی بنا پر کارکنوں کا تنظیم پر عدمِ اعتماد بڑھتا جارہا ہے اور کچھ میڈیا مالکان اس سے بھر پورہ فائدہ اتھا رہے ہیں ، ایک طرف تو ان کادعویٰ ہے کہ ان کے پاس کارکنوں کو ادائیگی کے پیسے نہیں ہے تو دوسری جانب ان کا کاروبار برھتا جارہا ہے ، اگر نوائے وقت گروپ کی بات کی جائے تو یہ اب کم ترین ادائیگی کرنے والے اداروں میں سرِ فہرست ہے جہاں تنخواہوں کی ادائیگی کا کوئی وقت مقرر نہیں اس کے برعکس اگر اس کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کی صرف سرکاری ا اشتہاروں کی آمدنی اس بہتر اخباروں سے زے بھی زائد ہےجہاں لاکھوں روپے تنخواہوں پر ریٹائرڈفوجی افسروں کو نوکری دیکر عام کارکنوں کو ہراساں کیا جاتا ہے جس کی واضح مثال سب ایڈیٹر فاران شاکر کو ایک ریٹائرڈ فوجی کا نوائے وقت کی سیڑھیاں اتر جانے کا حکم ہے جبکہ اس کارکن کا قصور تنخواہ مانگنا تھا تاکہ وہ مکان کا کرایہ ادا کرسکے ، اس ادارے کی لے پالک مالک رمیزہ نظامی کے پاس کارکنوں کو دینے کے لئے کوئی پیسہ نہیں لیکن ان کے نئے  بچے  کی پیدائش بلوچستان کے شہر گوادر سے ہوتی ہے جہاں کا اخبار ایک ڈمی کی صورت میں  کراچی  میں تیار ہوتا ہے ، اور گوادر کے مقامی اخبار کی حیثیت سے سرکاری اشتہار کا حقدار ہے ، ایسے ہی امتنان شاہد نے نئے بچے کو بہاولپورمیں جنم دیا ہے ، خبریں بہاولپور سے جاری کرنے کے لئے پیسے موجود ہیں ،لیکن کارکنوں کو بروقت اجرت کی ادائیگی میں دلی تکلیف محسوس کی جاتی ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اسی ادارے کے ڈمی نیوز چینل میں صحافیوں کے نمائندے مفت پروگرام کرتے ہیں اور بھاشن دیتے ہیں مگر مالکان کو کارکنان کی اجرت کے بات نہیں کرتے ، جب صحافیوں کے نمائندے میڈیامالکان کو ایسی سپورٹ دیں گے تووہ کارکنوں کی چیخ پکار کیوں سنیں گے ؟ کارکن خود کشیاں نہیں کرینگے تو کیا کریں گے؟ اور پھر کون نہیں جانتا کہ لاہور میں میڈیا مالکان کے رویے اور عدم ادائیگی کی بنا پر خود کشی کا پہلا واقعہ خبریں اخبار میں پیش آیا تھا جب ایک کارکن اعظم نے دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کرلی تھی جبکہ وہ بوڑھی بیوہ ماں اور بہنوں کا واحد کفیل تھا اور اس مظلوم خاندان کی زبان طاقت کے بل پر بند کردی گئی تھی ۔

پاکستانی اشاعتی و نشریاتی اداروں نے پاکستان سے باہر یورپی ممالک اور برطانیہ میں بھی میڈیا کارکنوں کو اجرت دینے کی بجائے ان کا استحصال شروع کردیا ہے جس پر برطانیہ میں مقیم پاکستانی صحافیوں نے منظم ہو کر اس استحصال کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے اور پاکستان پر یس کلب  برطانیہ کی ایکشن کمیٹی نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ برطانیہ میں پاکستانی میڈیا ہاﺅسز کے برطانیہ میں بیگار کیمپ نہیں چلنے دیے جائیں گے ۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں سحافیوں کی نمائندہ تنظیم نے اس میں مداخلت اور میڈیا معاملات پر بات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پاکستان پریس کلب یو کے کی ایکشن کمیٹی نے ایسی کوشش کرنے والے رہنماﺅں پر مکمل عدم،ِ اعتماد کرتے ہوئے انہیں اس معاملے میں مداخت سے باز رہنے کا مشورہ دیا ہے اور یہاں تک سخت الفاظ بھی استعمال کیے گئے ہیں کہ وہ اپنی دکانداری پاکستان میں میڈیا کارکنوں کے مفادات کا سودا کرنے تک محدود رکھیں ،ہم اپنے معاملات بہتر طریقے سے حل کر لیں گے ، اس کے بعد اس کمیٹی نے پاکستانی میڈیاہاﺅسز کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا ہے ۔ کمیٹی کے مطابق برطانیہ میں پاکستانی میڈیاہاﺅسز کی جانب سے کنٹریکٹ لیٹرز اور اجرت کی ادائیگی یقینی بنائی جائے غیر صحافی حضرات سے صحافتی کام کرواکے مختلف تقریبات میں پیسے اکٹھے کر کے اور صحافیوں اور پاکستان کی بدنامی بند کی جائے ، کمیٹی کے ایک رہنما کے مطابق برطانیہ میں اے آر وائی کے ماسوا کوئی ادارہ بھی کارکنوں کے بروقت ، مناسب اور قانونی اجرت ادا نہیں کررہا ، اب ان اداروں کو کارکنوں کا استحصال نہیں کرنے دیا جائے گا ، صحافیوں کی اجرت کھانے والے ارب پتی میڈیا مالکان اور ان کے ٹاﺅٹوں کو گداگروں کے ساتھ بیٹھ جانا چاہئے ، صحافیوں کو ان کے حقوق دیے جائیں ورنہ دما دم مست قلندر ہوگا ، قانون کے تحت ایچ ایم آر سی ، فنانشل کرائم ایجنسی اور عدالتوں سے رجوع کیا جائے ، ایک اطلاع کے مطابق قانونی چارہ جوئی کے لئے کیس بھی تیار کیا جارہا ہے جو مستقبل قریب میں برطانوی عدالت میں دائر کردیا جائے گا ۔

 یہ فیصلہ میڈیاکارن نے خود کرنا ہے کہ اس نے میڈیا مالک کی آزادی کی جنگ لڑ کر اپنے چولہے خود بجھا کر خوکشی کی ترجیح دینا ہے یا پھر اپنے حق کیلئے آواز بلند کرنا ہے اور اس کے مفادات کے تحفظ کے نام پر محض سیاست کرکے میڈیا مالکان کے مفادات کا تحفظ کرنے والوںکوکندھوں پر بٹھا نا ہے جو ابھی نہیں سمجھتے وہ خدا نخواستہکل خودکشی کےلئے جگہ ڈھوندھ رہے ہونگے لیکن برطانیہ میں مقیم پاکستانی سحافیوں نے جوراستہ اختیار کیا ہے وہ یقیناً ان مالکان کوگھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے گا جو سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں کیاجانے والا کارکنوں کا استحصال یورپ ، برطانیہ میں بھی جاری رکھا جاسکے گا ، جہاں نہ تو ان کی ٹاﺅٹی کرنے والے کام آسکیں گے اور نہ ہی راشی انتظامی افسر اور حکومتی عہدیدار ان کی مددکرسکیں گے ، ہاں یہ بات ہر کارکن کو ذہن میں رکھنا ہوگی کہ اگر کوئی ادارہ ماضی میں ان کا استحصال نہیں کرتا رہا اور اب مالی مشکلات کا شکارہے تو وہاں تعاون کرنا بھی لازم ہے اور اچھے دنوں کی واپسی کی امید بھی رکھنا چاہئے لیکن جن کا ضمیر اور خمیر ہے خنزیر ہے وہاں اس تعاون کی ضروت نہیں وہاں سے ہجرت لازم ہے۔(محمد نواز طاہر)۔۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں