alu timatar lelo sahafi lelo

میڈیا کارکنوں کا’ قتل عام ‘ اور ذمہ داران

تحریر: محمد نواز طاہر

لاہور کے معروف ’تعلیم فروش ادارے‘ کے میڈیا ہاﺅس ’دنیا نیوز ‘نے ملتان میں اپنے اخبار کی اشاعت بند کردی ہے اور بیورو آفس میں کچھ سٹاف رکھ لیا ہے جس سے بڑی تعداد میں میڈیا کارکن بے روز گار ہوگئے ہیں۔ میڈیا کارکنوں کی نمائندہ تنظیمیں اس پر خاموش ہیں ، عجیب بات نہیں ؟ عجیب کس کے لئے ؟ مگر عجیب کیوں ؟ ۔۔۔۔

یہ تین استفسارات ہے کسی کے پاس کوئی جواب ہے ؟ کوئی جواب دے گا ؟ کیا جواب ہے ؟ یہی تین استفسارات۔۔۔اس معاشی قتل قتل کا ذمہ دار کون ہے ؟ میڈیا ہاﺅس کی انتظامیہ ؟ حکومت ؟ میڈیا کارکنوں کی تنظیمیں ۔۔؟ پھرتین استفسارات۔۔۔۔اس قتلِ عام پر خاموشی کیوں ؟ کارکن مجبور ؟ بے حس ؟ بے بس ۔۔۔؟ مزید تین استفسارات ۔۔۔۔چپ رہنا چاہئے ؟ گونگوں کےلئے بولنا چاہئے ؟ کیوں بولنا چاہئے ؟ پھر تین استفسارات۔۔۔۔معاشی مقتولین زندگی کی رنگینیوں میں دوسروں کے دکھوں میں شریک رہے ؟، اگر رہے تو لوگ ان کے لئے سڑکوں پر کیوں نہیں آئے ؟انہوں نے کسی کا دکھ محسوس نہیں کیا تو دوسرے کیوں کریں ؟

 کوئی جواب دے یا نہ دے لیکن میں اپنی حد تک سمجھتا ہوں کہ کو کسی نہ کسی کو کوئی نہ کوئی جواب ضرور دینا چاہئے ، میرے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے بنیادی ذمہ دارہم کارکن ہی ہیں ؟ہم نے اتحاد کا قتلِ عام کیا ، میرٹ کو پسند نہ پسند کی کند چھری سے ذبح کیا اورناہل لوگوں کو پروموٹ کیا جو صحافی کے بجائے کلرک بن گئے ، یہی رویہ تنظیم سازی میں بھی اختیار کیا ، مزاحمتی سوچ کو تفریحی سوچ میں بدلا ، کارکنوں کے بجائے درپردہ مالکان کے’ کام‘ آئے ۔۔۔ایک جانب صحافتی اقدار اور صحافت کا گلا گھونٹا تو دوسری جانب اپنی حیثیت کومسخ کیا ، صلاحیت پرمنافقت کا رنگ چڑھا دیا ۔۔۔

معاشی قتلَ عام پر لاہور میں ایک احتجاج ہوا پھر کچھ لوگوں نے’ محبوب قائدین ‘کی حیثیت سے مالکان کے ساتھ ضیافت اڑائی ، ایک مظاہرے کے بعد خاموشی اختیار کرلی ۔۔۔؟اس ادارے کے متاثرین بھی اپنے سے پہلے جیسوں کی طرح حالات کے منکر نکیر کے سامنے بے سدھ پڑے ہیں ۔۔۔اس ادارے کے مالک مولوی میاں عامر محمود نے احتجاج کا راستہ صاف کروانے کے بعد پھر وار کردیا ، یہ وہی انداز ہے جو جنگ جیو گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان کا طریقہ واردات ہے جبکہ میڈیا مالکان ( سبھی نہیں ، بڑی تعداد میں ) میر شکیل کے بتائے ہوئے’ سنہری اصولوں ‘ پر عمل کررہے ہیں جو کل کو روئیں گے جبکہ ایک سے زائد اداروں میں چھانٹی کی لسٹ ’استری ‘ کی جارہی ہے

 کیا کارکنوں کے معاشی قتلِ عام کی وجہ میڈیا مالکان کے مالی حالات کی خرابی ہے ؟ ہرگز ،ہرگز نہیں یہ سب سے بڑا دھوکہ ، جھوٹ اور فریب ہے۔ میڈیا مالکان نے میڈیا ہﺅسز کی بنا پر جو کچھ کمایا ہے ، ذیلی ادارے اسی کمائی سے بنائے ، اگر ان میں چھاٹی کی گئی ہے اور انہیں بند کیا

 گیا اور ان کے بینک اکاﺅنٹ کے ہندسے کم ہوئے تو بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ ان میں سے قارون کے گھر کون پیدا ہوا تھا ؟ ساری دولت کہاں سے آئی ؟ ملک کے وزیراعظم سے منی ٹریل مانگی جا سکتی ہے تو میڈیا مالکان سے کیوں نہیں ؟ ٹی وی ریڈیو اور اخبار کے لئے اشتہارات کس بنیاد پر ملتے ہیں ؟ سرکولیشن اور معیار کے سوا کوئی دوسری وجہ ہے کہ عام آدمی یا کمپنیاں اپنی تشہیر کے لئے اپنے اشتہارات دیں ؟ جی ہاں ! ۔ اشتہارات کی دو بیادیں اور بھی ہیں ایک بلیک میلنگ اور دوسری نوازش ۔۔ کیا بلیک میلراب بلیک میلنگ چھوڑ کر حاجی ثناءاللہ بن گئے ہیں ؟ لوگ اب بلیک میل نہیں ہوتے ؟ کیا نوازشیں کرنے والے ناراض ہوگئے ہیں ؟ کیا کوئی شخص یا کمپنی ایسے اخبار ٹی وی یا ریڈیو کو

 اشتہار دے  گا جس کی سرکولیشن ہی برائے نام ہو ؟ یا انتہائی غیر معیاری ہو ؟ ہر گز نہیں ۔ ایک نوازش درباری سرکاری ہوتی ہے سرکاری ہوتی ہے دوسری درباری و پیاری نجی نوازش ۔ نجی نوازشات میں موجودہ معاشی حالات میں لاغر ہیں ، سرکاری نوازشات تو سرکاری ہیں سرکار کے بارے میں ’سرِ دست‘ فیصلہ آپ پر ہے ۔۔۔سرکاری اشتہارات میں بھی حکومت کے ساتھ ساتھ انفارمیشن منسٹری کے حکام سے پیادوں تک حصہ دار ہوتے ہیں ، یعنی حصہ بقدرِ جثہ ۔۔۔

 موجودہ حالات میں میڈیا مالکان ( سبھی نہیں ) حکومت اور کارکنوں ، دونوں کو بلیک میل کررہے ہیں کارکنوں کو چھانٹی کے نام پر بلیک میل کرکے حکومت پر کارکنوں سے ہی دباﺅ ڈلواتے ہیں اور اشتہارات و مراعات لیتے ہیں اور پھر کارکنوں کو فارغ بھی کر دیتے ہیں ، بس میڈیا ہاﺅسز کے مالکان کے غیر پیشہ وارانہ کام آنے والے ہنر مند قسم کے مخصوص لوگ محفوظ رکھے جاتے ہیں ۔ حکومت بھی جانتی ہے کہ صحافی تو اپنے موقف پر ڈٹ سکتا ہے لیکن’ صافی ‘ نہیں جبکہ صافی اچھی خاصی تعداد میں ہیں جو صحافیوں پر’ ہاتھ صاف ‘ کرنے میں مالکان کے ہرکاروں کا ساکام کرتے ہیں ۔

 حکومت کارکنوں کے معاشی قتلِ عام کی ذمہ دار اس لئے بھی ہے کہ قانون سازی اور قانون پر عملدرآمد کروانا اس کی ذمہ داری ہے جس میں وہ مسلسل کوتاہی کی مرتکب ہورہی ہے ۔ کیا حکومت کو دکھائی نہیں دیتا کہ جنگ اور جیو سمیت کس کس ادارے میں کتنے کتنے ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں ؟ مالکان سرِ عام قتل عام کررہے ہیں اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔حکومت جانتی ہے کہ اخبارات ایک اسٹیشن سے تیار کرلے کئی اسٹیشنوں کے نام پرنٹ کیے جارہے ہیں اور وہ پھر بھی تمام اسٹیشنوں کے حساب سے قومی خزانے سے میڈیا مالکان کی تجوریاں بھر رہی ہے ۔ یہ وہ ’ انڈر ورلڈ ‘ ہے جو ساری کی ساری اوپن ہے جس کا ٹارگٹ قومی خزانہ اور ادارے اور بے بس عوام ہیں ۔

 حالات جیسے بھی ہیں ، اگر میڈیا کارکنوں کی تنظیمیں خاموش رہتی ہیں تو ان کردار کو صاف رکھنے کے لئے ’میڈیا مالکان سوپ ‘ کسی کام نہیں آئے گا بلکہ ایسے دھبے چھوڑے گا جو ان کے چہرے کالے کرکے رکھ دے گا آج نہیں تو کل ، جہاں تک مالکان کا تعلق ہے تو وہ مکافات عمل کے لئے تیار ہیں ۔یہ بات مولوی میاں عامر محمود اور اس کے رِنگ ماسٹر میر شکیل الرحمان سمیت ہر پھنیئر کو یاد رکھنا ہوگی ۔ جو آج حکومت میں ہیں وہ کل نہیں ہونگے ، پھر انہیں کوئی میڈیا مالک گھاس نہیں ڈالے گا ، جو میڈیا مالک آج حکومت کی آنکھ کا تارا ہیں کل کو حکومت کے پیٹ کی گیس ہونگے ۔۔۔ کسی کا کردار زندہ رہنا ہے تو میڈیا کارکنوں کا ہی رہنا ہے ۔

 استفسارات پر یہ تو میرا جواب ہے، باقی سب اپنا اپنا جواب دیں اور یاد رکھیں کہ جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ دوسروں کو نشہ بیچ کر اپنے پیاروں کو نشے سے بچا لے گا وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے ۔(محمد نوازطاہر)۔۔۔

(محمد نواز طاہر لاہور کے سینئرجرنلسٹ ہیں اور چھ اکتوبر کو لاہور میں ہونے والے پنجاب یونین آف جرنلٹس کے الیکشن میں بھی امیدوار ہیں، عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا زیرنظر تحریرسے متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں