تحریر: محمد نواز طاہر
کئی دنوں سے میڈیا کارکنوں کے کسی اہم معاملے پر سخت رائے کا اظہار نہیں ہوا تھا ، وجہ اس کی یہ تھی اور ہے بھی ، کہ میڈیا کارکن شدید مشکلات کا شکار اور پریشن ہیں لیکن ایسے وقت میں جبکہ مشکلات پر قابو پانے کے اقدامات ہو رہے ہوں یا کئے جارہے ہوں تو اس وقت فیصلے بھی سخت ہونا چاہئیں اور رائے بھی اسی انداز سے دی جانا چاہئے ، اس لئے آج اخباری کارکنوں کو ایک فیصلہ سے آگاہ کیا جارہا ہے اور ساتھ ہی کچھ سوالات بھی چھوڑے جارہے ہیں جن کے جواب کسی اور نے نہیں ہر کارکن نے خود دینے ہیں اور کسی دوسرے کی ہی نہیں بلکہ اپنے آپ کو ہی دینے ہیں ، جب اپنا سوال اور اپنا جواب ہو تو ضمیر جواب بھی صحیح دیتا ہے اور دماغ درست یا غلط جواب کا فیصلہ کرنے میں بھی ڈنڈی نہیں مارتا ۔
آٹھویں ویج بورڈ کی کارروائی میں حصہ نہ لینے والی لیڈر کس منہ سے اخباری کارکنوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں ؟ جو بورڈ کی کارروائی سے کنارہ کش کارکن بھی کس منہ ویج ایوارڈ مانگتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ ان کے حقوق نہیں ملتے یا انہیں حقوق دلانے والا کوئی نہیں ؟ یا پھر ان حقوق دلانے والے غافل ہیں ؟ ویج بورڈ کی کارروائی میں حصہ لینا ہر اخباری کارکن کے اپنے ذاتی مفاد کا معاملہ ہے جو انسان اپنے مفاد کے تحفظ کے وقت سویا رہے اسے کیا کہا جائے ؟ بہر حال جن لوگوں نے اپنے تئیں یہ ذمہ داری اٹھا رکھی ہے وہ تو اپنا فرض ادا کریں گے لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے جان بوجھ کر گونگے بہرے بننے والے اپنی غفلت سے ہی مارے جاتے ہیں ۔
میں نے ذاتی حیثیت میں فیصلہ کیا تھا کہ آئندہ میڈیا کارکنوں کی کسی بھی تنظیم کے الیکشن میں کسی ایسے امیدوار کو ووٹ نہیں دوں گا جو آٹھویں ویج بورڈ کی کارروائی کا حصہ نہیں بنے گا، خوش آئند اور اطمینان بخش بات یہ ہے کہ میرے اس فیصلے پر کئی لوگوں نے اتفاق کرتے ہوئے اس کی تائید و توثیق کی ہے جو اس امر کی غماز ہے کہ کارکن صورف سوئے ہی نہیں ہیں ، جاگ بھی رہے ہیں اور اخباری کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کے بلند و بانگ دعوے کرنے والوں سے آگاہ بھی ہوچکے ہیں ۔
اخباری کارکن ساتھیوں کو اس فیصلے سے آگاہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ویج ایوارڈ کی کارروائی میں حصہ لینے والے تمام ساتھیوں کی فہرست شائع کی جائے گی اور بورڈ کے روبرو بہتر انداز سے اپنا مقدمہ پیش کرنے والوں کی تحسین بھی کی جائے گی، اس کے علاوہ صحافتی کمیونٹی کے مختلف گروپوں میں سے بہتر گروپ کا تعین بھی بورڈ کی کارروائی سے ہی کیا جائے گا اور مستقبل میں ساتھ بھی اُسی گروپ کا ہی دیا جائے گا جس میں ذاتی دوستی اور شخصی پسند و ناپسندیدگی کو آڑے نہیں آنے دیا جائے گا ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پی ایف یو جے اور ایپنک کے الیکشن میں ہی ویج بورڈ میں حصہ نہ لینے والوں کا بائیکاٹ کیا جائے جس عدم اتفاق کیا گیا ہے اورطے کیا گیا ہے کہ کارکنوں کا نمائندہ ہونے کے دعویدار کے لئے جواز گھڑنے والے کسی صورت لیڈر کہلوانے کے حقدار نہیں ۔ یہ درست ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر ویج ایوارڈ کا اطلاق نہیں ہوتا لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے اچھے یا کم اچھے لیڈرانِ کرام پرنٹ میڈیا کے کارکنوں کے مفادات کے تحفظ کے وقت اپنا کردار دا نہ کریں ۔(محمدنوازطاہر)