تحریر: محمد نواز طاہر۔۔
صحافیوں کی واحد نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ( پی ایف یو جے ) ملک بھر میں صحافیوں کی اندھا دُھند چھانٹیوں اور تاریخ کی بد ترین بے روزگاری کے حقائق جاننے کے لئے ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا رہی ہے۔یہ اطلاع ایک انتہائی بھونڈے طریقے سے پہنچی یعنی پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی اس کمیٹی کے بابت ایک عہدیدار کو ٹیلی فون پر بتا رہے تھے جنہوںنے والیم ہائی کررکھا تھا اور گفتگو پوری طرح باوردی اور چوکس دراندازی کرتے کئی کانوں کے کواڑ توڑتی ہوئی اخلاقی سرحدی خلاف ورزی کی مرتکب ہورہی تھی ، پاس سے گذرتی گاڑی ہو یا چہکتی حسینہ یا پھر چیختا بچہ گذرے تو آواز کہاں چھپتی ہے بعد میں اس کمیٹی کی دیگر ساتھیوں سے بھی تصدیق ہوئی ۔
پی ایف یو جے صحافیوں کی منتخب تنظیم ہے اور جاننا چاہتی ہے کہ بڑے پیمانے پر بے روزگاری کے اسباب کیا ہیں،اس کمیٹی کے ٹی او آر ابھی سامنے نہیں آئے ، اگر تو اس کا مقصد یہ جاننا ہے کہ میڈیا مالکان کس طرح اپنے وسائل چھپا رہے ہیں؟ ہمارے اپنے لوگ کس طرح انکے آلہ کار بن رہیں ؟ حکومت یا ریاستی ادارے کیا کردار ادا کررہے ہیں ؟ پھر تو یہ بہت اعلیٰ کام اور قابلِ تحسین اقدام ہے ۔ لیکن اگر کوئی غافل بد دماغ اور استاد یہ جاننا چاہے کہ شاگرد اس کا احترام کیوں نہیں کرتا ؟ بینک کا چور کیشئر یہ جاننے کی کوشش کرے کہ کیش کم کیوں ہوجاتا ہے ؟ پولیس اہلکار یہ تحقیق کرنا چاہے کہ یہ محکمہ بدنام کیوں ہے ؟ فوجی آمر یہ انویسٹی گیٹ کریں کہ اس مقتدر ادارے کا عوام کی نظر میں وقار کیوں دھڑم ہوتا ہے ؟ غیر جماعتی الیکشن کے بعد دولت سمیٹنے والے وزراءاور بینک بھرنے والے سیاستدان یہ جاننے کے لئے پارلیمانی کمیشن بنائیں کہ سیاست میںکرپشن اور فلور کراسنگ کیوں ہوتی ہے اورسیاستدان کہلانے کے شوقین لوگ بار بار جی ایچ کیو کی طرف قدم بوسی کےلئے کیوں رجوع کرتے ہیں تو اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ ان کا دماغ چل گیا ہے یا پھر وہ کسی کو ماموںبنانا چاہتے ہیں ؟ ممکن ہے خود فریبی سے خود لذتی چاہتے ہوں ۔ کیا یہ جعلی پولیس مقابلے میں کسی بے گناہ کوقتل کرنے کے بعد مقابلہ کرنے والے یا اس کے ساتھی اہلکار سے مقابلے کے اصلی یا جعلی ہونے کی تحقیقات کروانے کے مساوی نہیںہے؟ ۔ کیاملک کے صحافی کسی ایسے سیارے سے اتر کر پاکستان میں آئے ہیں جویہاں کے میڈیا اور مالکان کے حالات سے آگاہ نہیں ؟ جو کچھ ہورہا ہے سب کچھ ان کے سامنے نہیں ہورہا ؟ ۔۔۔۔ جب تک ٹی او آر سامنے نہیں آتے وسوسے اور تحفظات خارج از اذہان نہیں ہونگے کیونکہ ایک عرصے سے عام کارکن محسوس کررہا ہے کہ جب بھی کسی میڈیا مالک اور خاص طور پر کسی بڑے ادارے کے مالک پر کوئی ” آفت “ آتی ہے توصحافت کی آزادی خطرے میں پڑ جاتی ہے جبکہ اس مالک نے ابھی کارنوں کا خون اپنے لبوں سے صاف بھی نہیں کیا ہوتا ؟ اور ہم کارکنان اپنی قیادت کے پیچھے صحافت کی نصابی ٓزادی کے نعرے لگارہے ہوتے ہیں حالانکہ وہ مالک بھی کاروباری مفادات کے تحفظ اور من مانی کے ساتھ اسی آذادی سلب کرنے والوں میں سرِ فہرست ہوتا ہے ۔
یہاں پی ایف یو جے اور ایپنک کے وہ دور یاد آتا ہے جب میڈیا مالکان کے اثاثوں کی تحقیقات اور کا مطالبہ کیا جاتا تھا اور اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ جب کسی مالک کے خلاف ( کسی بھی نیت سے ، کسی بھی جرم کے تحت، غیر صحافتی عمل پر) کوئی کارروائی شروع ہوتی ہے تو سب سے پہلے کارکنوں کو قربانی کے بکرے بنایا جاتا ہے اور یہ کارکن ریورڑ کی طرح ایک دوسرے سے آگے نمایاں ہوتے ، حاضری لگواتے یا کسی چھپتے ہوئے کھلے میدان میں آن کھڑے ہوتے ہیں ، جن کے ایک طرف قصائی ، دوسری جانب بھوکے خونخوار بھیڑئے آنکھیں پھاڑے کھڑے ہوتے ہیں اور یہ بکرے خود کو شیر قرار دے رہے ہوتے ہیں بعد میں اپنے باڑے میں ہی ڈاﺅن سائزنگ کی وبا کے سامنے ایک سیکنڈ بھی نہیں ٹِک پاتے اور لمحوں میں مر جاتے ہیں ۔
کارکنوں کے تحفظات دور کرکر کے آگے بڑھنے سے اس کمیٹی کا قیام بہت اعلیٰ اور مقاصد کارکنوں کے انتہائی مفاد میں ہوسکتے ہیں جس کی پہل اس اعلان سے ہوسکتی ہے کہ بھلے کچھ بھی ہو یونین کسی طور بھی کسی مالک کے ساتھ کھڑی نہیں ہوگی بشرطیکہ کہ کسی رپورٹر کی درست خبر پر ادارہ اس کے ساتھ کھڑا ہو اور ریاستی یا غیر ریاستی عناصر نے اس کے خلاف لٹھ نہ اٹھالی ہو، ایسی صورت میں یہ پیشہ ورانہ اور صحافتی آزادی کے تحفظ کا معاملہ جس میں سبھی ایک صف میں ہونا چاہئیں۔
مالیاتی اور دیگر امور میں کتنے میڈیا مالک پاک صاف اور جنت کے دودھ سے نہائے ہوئے ہیں ؟ اگر دیانتداری کی عینک لگاکر دیکھا جائے توکتنے مالکان ایسے بچتے ہیں جن کے منہ پر کارکنوں کا خون نمایاں نہیں ؟ کتنے ایسے ہیں جو اپنی کرپشن اور بد دیانتیوں کے باعث صحافیوں سے خائف تھے اور پھر صحافی انہی کے’ غلام‘ کی حیثیت سے محافظ بن گئے ہیں ۔
بائیسکل پر سوار ایک کمرے کے دفتر میں آنے والے میڈیا ٹائیکون ایک سے زائد کاروبار کے مالک اور مالدار ترین کیسے بن گئے ؟ یہ جاننے کے لئے کس کمیٹی کی ضرورت ہے ؟خود کو میڈیا کی چھتری تلے لانے والے کون ہیں ؟ ان سے کون آگاہ نہیں ؟
یہ ضرور جاننے کی ضرورت ہے کہ پاکستان ٹائمز، مشرق ، امروز ، ہلالِ پاکستان ، اخبارِ خواتین کوڑیوں میں لے کر تجوریاں بھرنے والوں نے ان اداروں اور یہاں کام کرنے والے کارکنوں کےساتھ کیا سلوک کیا ؟ ایسے پرانے اخبارات جو کسی نہ کسی حد تک صحافت کرتے رہے اور اب مررہے ہیں یا مر گئے ہیں ؟ ان کے کارکنوں اور ان کی اپنی حالت کیا ہے اور انہیں کس طرح سنبھالا جاسکتا ہے ؟ کارکنوں کے نام پر سرکاری اشتہارات سے کتنے اشتہارات لئے گئے اور ان میں سے کارکنوں کو کیا شیئر ملا ؟ کیا باقی ملکوں میں اشاعتی و نشریاتی ادارے سرکاری اشتہاروں ہی کی بنیاد پر کارکنوں کو اجرت ادا کرتے ہیں ؟ اشتہاروں کے معاملے میں یونین کیوں مداخلت کرتی ہے اور کیا اسے کرنا چاہئے ؟ اخبارات کی سرکولیشن کتنی ہے اور فراڈ سے حاصل کئے جانے واللے اے بی سی سرٹیفکیٹ مٰن ان کی تعداد اشاعت کتنی ظاہر کی گئی ہے ؟ کتنے اخبارات سکڑ کر اے پی این ایس اور سرکاری پالیسی کے مطابق تیسرے اور چوتھے درجے تک آن گرے ہیں ؟ کتنے اخبارات ایک اسٹیشن سے تیار ہو کر کتنے اسٹیشنوں کے ڈیکلریشن کے نام پر اشتہارات حاصل کررہے ہیں ؟ اور ان اسٹیشنوں پر اخبارات تیار کرنے والے کتنے کارکن کام کررہے ہیں اور کتنے فارغ کردیے گئے ہیں ؟ اشاعتی ادارں کی طرح نشریاتی اداروں کی بھی یہی پوزیشن ہے ۔ کس کی کتنی ریٹنگ ہے ؟ کتنا سٹاف ہے ؟ یک ایک کارکن اکیلاکتنے کتنے لوگوں کا کام کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے ؟
ان سب کی تحقیقات ہونا چاہئیں۔ تحقیقات کرنے والوں میں ایسی سوچ اور خیالات کے حامل لوگ نہیں ہونا چاہئیں جو کارکنوں سے پہلے میڈیا مالکان کے اشتہارات اور وسائل کی بات کریں ؟ بصورتِ دیگر یہی صورتحال ہوگی کہ پی ایف یو جے اپنے ہاتھوں ایک ایسا کلہاڑا تیار کرلے گی جس سے وہ خود قتل ہوجائے گی یعنی ایسی رپورٹ مرتب ہوسکتی ہے جو کارکنوں کے مفادات کے تحفظ کے بجائے مالکان کو بیل آﺅٹ کردے گی اور صرف اشتہارات کی بنیاد ریاست کو قصور وار ٹھہرائے گی جبکہ حمام میں ننگوں کی تعداد ایک سے زائد ہے ۔ ایسی رپورٹ مرتب ہونے کی صورت میں پی ایف یو جے کارکنوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے کس سے کیا مطالبہ کر سکے گی ؟ ایسی نوعیت کی اس رپورٹ مرتب کرنے والوں کو کارکنوں کے قانونی معاشی حق ویج ایوارڈ کی کے نفاذ کے خلاف اے پی این ایس کے کیس کاعدالتی ریکارڈ کہیں نہ کہیں تو دفن کرنا پڑے گا ؟
تحقیقاتی کمیٹی کا قیام فیڈرل ایگزیکیٹیو کمیٹی کے اجلاس میں مفصل بحث کے بعد عمل میں آنا چاہئے اور وہیں اس کے ٹی او آرز مستقبل کو ماضی کے آئینے میں دیکھ کر بنائے جانا چاہئیں تاکہ کارکنوں کے مفادات کا مکمل تحفظ کیا جاسکے۔۔(محمد نوازطاہر)
(مصنف کی تحریر اور اس کے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔