Adil Pervez

میڈیا کا مستقبل کیا ہوگا؟؟؟

تحریر: عادل پرویز۔۔

صحافت کو عروج کے بعد زوال کے اندھیروں میں چھوڑ کر ایک ایکسچینج پروگرام میں امریکہ آیا۔ لیکن یہاں مختلف صحافتی اداروں، تعلیمی اداروں اور ان سے منسلک افراد سے ملاقات کے بعد پتا چلا کہ صحافت یہاں تقریبا دم توڑ چکی ہے۔ اخبارات اور نیوز ٹی وی چینلز ، انٹرنیٹ کا مقابلہ نہ کرسکے اور دم توڑ چکے یا توڑ رہے ہیں۔ صحافت کا مضمون لوگ پڑھ تو رہے ہیں لیکن صحافی بننے کے لئے کم ہی۔ اخبار اورنیوز چینلز اب آن لائین ہی دیکھے جارہے ہیں۔ کلاسیفائیڈ اشتہارات ختم ہوچکے اور صحافتی ادارے اب نقصان پر چل رہے ہیں۔ ویسے بھی امریکی نشریاتی ادارے اور اخبارات حکومت کی محتاجی نہ پہلے مانتے تھے اور نہ اب حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی میں قائم “ نیوزیم” جہاں دنیا بھر کی اہم خبریں، تصاویر اور دیگر مواد رکھا گیاہے۔ اب یہ میوزیم بھی خسارے کے باعث جلد بند ہوجائے گا۔ تو قصہ مختصر یہ کہ جو پاکستان میں جلد ہونے والا ہے یہاں ہوچکا ہے۔ پاکستان میں صحافی جہاں کئی کئی ماہ تنخواہوں سے محروم ہیں تو وہیں امریکہ میں صحافی ڈاؤن سائزنگ کا شکار ہوچکے۔ جہاں پاکستان میں ڈاؤن سائزنگ عروج پر تو یہاں کئی صحافتی ادارے بند ہوچکے یا آن لائین کردیئے گئے۔ تو صحافتی ادارے اس وقت پاکستان کے ساتھ ساتھ سپر پاور امریکہ میں بھی زوال کا شکار ہیں۔ یہاں حل تو بہت نکالے گئے۔ لیکن کچھ بھی کارکرگر نظر نہیں آرہا۔ کیونکہ اب انٹرنیٹ اور پھر سوشل میڈیا نے ہر ایک کو صحافی بنادیا۔ ایک خیال یہی ہے کہ چند ماہ یا سال بعد پاکستان میں بھی اکادکا صحافتی ادارے اور اکادکا صحافی ہی رہ جائیں گے۔ امریکہ میں صحافی متبادل روزگار پاچکے کیونکہ یہاں روزگار کی کمی نہیں۔ لیکن شاید پاکستان میں ایک صحافی کے لئے متبادل روزگار پانابہت مشکل ہے۔ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کے جرنلسٹ جو اچھی خاصی تنخواہ لیتے ہیں اور کئی کئی سال ان اداروں کو دے چکے ،، اب کہاں جائیں گے یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ امریکہ میں جہاں انٹرنیٹ اور پھر سوشل میڈیا صحافتی اداروں کے زوال کی وجہ بنا وہیں پاکستان میں سرکاری اشتہارات کے ریٹس میں کمی کو بھی اس زوال کی وجہ گردانا جاتا ہے۔ تاہم اب بھی مالکان اس آس پر ہیں کہ شاید سرکاری اشتہارات دوبارا ملیں تو دوبارا حالات بہتر ہوں۔ لیکن شاید یہ بہت مشکل یوٹرن ثابت ہو۔۔۔(عادل پرویز )

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں