تحریر: ڈاکٹر مجاہد منصوری۔۔
خاکسار پاکستانی سینئر سٹیزن کی اس لاٹ کا شہری ہے جو اپنے مخصوص پس منظر کے تناظر میں سوشل میڈیا کی مسلسل بڑھتی اہمیت و غلبے میں بھی ’’پاور آف پرنٹ ورڈ‘‘ کے گہرے اثر کے راز کو جانتے یا عادتاً اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ مطالعہ بمقابلہ سوشل میڈیا کا نشئی استعمال، دو اڑھائی عشرے سے میڈیاا سکالرز، اور کمیونیکیشن اسٹرٹیجسٹس اور پلانرز میں اپنی اپنی اہمیت کے حوالے سے توجہ طلب ہے اور زیر بحث بھی ۔ یہ تو ماننا پڑے گا کہ سوشل میڈیا کا طوفان اپنے جارحانہ غلبے میں دنیا بدل چکا تو دوسر ی جانب پرنٹ میڈیا کے گہرے ابلاغی اثر کا ہونا اپنی جگہ ثابت شدہ ہے۔ اس کی سخت جانی اور سروائیول کی حالت کے واضح اشارے بھی اپنے اثر کےساتھ عالمی سطح پر عیاں ہیں، اس سے سوشل میڈیا بھی اپنا پیٹ بھرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مقابل سوشل میڈیا کی اہمیت اور طاقت نے ناچیز جیسے پرنٹ میڈیا کے راز ہائے اثرات و رائے عامہ کے عمر پیری میں آئے واقفان سے خود کو منوا لیا اور اسے جلد بدیرسیکھنے سمجھنے پر مجبور کردیا۔ بلاشبہ سوشل میڈیا کی سحر انگیزی نے بزرگان صحافت اور اس سے جڑے سینئر سٹیزنز میں بلند درجے کا یہ احساس پیدا کردیا کہ وہ سوشل میڈیا کے کم ازکم بنیادی اور ابتدائی استعمال سے ناآشنا ہیں تو خود کو موجودہ زمانے کی مخلوق نہ سمجھیں۔ ماشا اللہ، ترقی کے زینے پر چڑھتے بچے آج بزرگوںکے استاد اور مسلسل سورس آف لرننگ بن گئے۔ کوئی شک نہیں کہ جہاں پرنٹ میڈیا اپنے تجربے، تنظیم اور انسانی تہذیب کا سنگ میل بن جانے والی ٹیکنالوجی (پرنٹنگ) کے زور سے آج بھی رائے عامہ کی تشکیل کا سب سے موثر ذریعہ اور علم و عمل کی ہوک پیدا کرنے اور احتیاط اور ذمے داری سکھانے کا بڑا ذ ریعہ ہے،وہاں بیش بہا سوشل میڈیا دیکھتے دیکھتے سیاسی بیداری، سماجی رابطوں، سوشل ڈویلپمنٹ اور تیز ترین انفارمیشن فلو اور تفریحِ عامہ کا نہ تھمنے والا سیلاب رواں لیکن احتیاط و ذمے داری اور ابلاغی اخلاقیات سے مادر پدر آزاد بھی اور بلند درجہ پر نشہ آور بھی۔ کہ میڈیا ایڈکشن دنیا بھر میں ماس کمیونیکیشن کا چوٹی کا مسئلہ بن گیا ہے۔ آج کمیونیکیشن سائنس کے اساتذہ و طلبہ کی تحقیق اور اسٹڈیز میں بھی سوشل میڈیا کے ڈیزاسٹر قابو سے باہر ہیں۔ لیکن جہاں اس نے بڑے بڑے مافیازکو بے نقاب کیا وہاں اس جادو بھرے ذریعہ ابلاغ نے ہر طاقت سےلیس انڈر ورلڈ پرپے در پے حملہ کرکے اس کی طاقت توڑی نہیں تو کم ترضرور کر دی ہے، وہیں اس نے معاشرے، امن، اتحاد آئین و قانون کے بھی پرخچے اڑا دیئے اور اس سے کھلواڑ کرنے والے حکمرانوں اور ریاستی اداروں کی عوام دشمن پالیسیوں اور اعمال کے بھی۔
قارئین کرام! میں تین چار ’’آئین نو‘‘ کی اشاعتوں میں واضح کر چکا ہوں کہ قیام پاکستان پانچ مسلمہ عناصر میں ایک مسلم لیگ اور قائداعظم کو اثر انگیز مسلم میڈیا کی مطلوب ابلاغی معاونت تھی۔ قیام پاکستان کے بعد مارشل لائوں کی سرزمین پر جمہوریت کی اہمیت کو آمروں سے منوانے، جمہوریت کے لئے مزاحمت اور پاکستانی معاشرے کو آئین و قانون پر چلانے، پاکستان کے دفاع اور سیاسی و معاشی اور سماجی ترقی میں ہمارے میڈیا نے تاریخ ساز کردار ادا کیا ہے۔ پاکستانی قوم ترقی پذیر جمہوریتوں اور ممالک میں بھرپور میڈیا پوٹینشل کی حامل قوم ہے۔ یہ آج اپنا حجم غیر معمولی حد تک بڑھنے اور سوشل میڈیا کی وسیع ترسرگرمی کے باوجود ملکی گھمبیر اور مسلسل سیاسی و اقتصادی و انتظامی تشویشناک بحران کی جکڑ بندی سے ہمارا یہ بڑا قومی اثاثہ بھی شدید متاثر ہوا ہے، اس کے باوجود جبکہ اب تو تمام ہی ریاستی ادارے تنہا یا مل کر بھی (جبکہ مل کر چلنے کے امکانات بھی بالکل معدوم ہوگئے) ملک کو اس بحران سے نکالنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں خود مین اسٹریم میڈیا نمک کی کان میں نمک بنتا جا رہا ہے، لیکن پھر بھی ابھی جاں باقی ہے۔
میڈیا سائنس کا اسٹوڈنٹ ہونے کے ناطے میں اپنی اس رائے میں مکمل پراعتماد ہوں کہ ملک کاسب سے کثیر الاشاعت اخبار ہونے کے ناطے، اپنے پر آئے کئی بڑے بحرانوں کے باوجود جنگ نے اپنی ایجنڈا سیٹنگ سے پورے میڈیا کو عشروں متاثر کیا ہے۔ آج کے ’’آئین نو‘‘ کا محرک جنگ کا یہ ہی امتیاز بنا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ روزنامہ جنگ عشروں سے اپنے صفحہ اول کا آغاز ہر روز مترجم آیت قرآنی سے کرتا ہے، جو مین ہیڈ لائن کے اوپر شائع ہوتی ہے۔ قارئین کی توجہ کے لئے منتخب آیت کے موضوع کا انتخاب جنگ خود کرتا ہے۔ گزشتہ روز (29اکتوبر 2023) صفحہ اول کے اس متبرک و مقدس ریگولر فیچر کی سرخی منجانب جنگ ’’انصاف کی تلقین‘‘ ہے۔ منتخب سورہ حجرات کا ترجمہ یہ ہے کہ :’’پس جب وہ رجوع لائیں تو دونوں فریقوں میں مساوات کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہےoمومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحمت ہو‘‘۔بات کرنے کی تو نہیں لیکن فلاح عامہ کیلئے کرنا بنتا ہی نہیں موجود ملکی صورت حال میں لازم ہوگیا ہے، یہ کہ: جب سے جنگ نے فروغ آیات قرآنی کا یہ سلسلہ اپنی ایجنڈا سیٹنگ میں شامل کیا، ناچیز صبح اپنی اخبار بینی کا آغاز روز شائع آیت کے ترجمہ کے مطالعہ ہی سے کرتا ہے۔ یقین جانیے جس کے ذات کے لئے برکات و ثمرات تو بہت اب جبکہ گزشتہ صبح متذکرہ آیت کا ترجمہ پڑھا تو نہ جانے کیوں شدت سے محسوس ہوا (پہلے بھی اس پر سوچا اور ذہن سے جھٹک بھی دیا)کہ یہ ممکن نہیں، سو ’’آئین نو‘‘ میں اشارے تو کئے لیکن ’’صلح و انصاف‘‘ مکمل کالم کا موضوع نہ بنا، جبکہ آج کل گھمبیر بحران کو ختم کرنے کے لئے فراہمی انصاف اور نظام انصاف کے برباد ہونے کی دہائی اور صلح کی ناکام اور جاری کوششوں کی خبریں دونوں ہی زوروں پر ہیں، تو دل ٹِک گیا کہ قرآنی آیت میں دکھائی گئی اس راہ کو ’جب رجوع کریں تو کیا کیا جائے…‘اللہ سبحان تعالیٰ کی حتمی رہنمائی پر دل ٹک گیا، اور قومی بحران کے تناظر میں آیت کا ترجمہ پڑھتے ہی ’’آئین نو‘‘ کے موضوع کا انتخاب ہوگیا۔ جاری ہے۔۔(بشکریہ جنگ)۔۔