تحریر: عندلیب عباس۔۔
جسمانی سے معنوی‘ ہوم ڈلیوری سے لے کر فون کے ایک کلک اورکاغذ سے آن لائن تک کا سفر اُس انقلاب کی مبادیات ہیں جس سے میڈیا گزرا ہے۔ جس طریقے سے خبریں بنائی اور پھیلائی جاتی ہیں‘ وہ میڈیا میں آنے والی ایسی تبدیلی ہے جسے دنیا‘ خاص طور پر پاکستان نے ابھی نہیں سمجھا اور نہ ہی اسے اختیار کیا ہے۔ ملک بھر میں روایتی میڈیا نمائندوں کا نظام‘ پھر خبر بھیجنا اور چھاپنا گزرے وقتوں کی باتیں ہیں۔ مطبوعہ صحافت کو نوجوان نسل کے ہاتھوں زک اٹھانا پڑ رہی ہے جو اتنی تیزی سے ”تازہ‘‘ خبریں پھیلا دیتی ہے کہ جب تک اخبار میں خبر شائع ہوکر اگلے دن دستیاب ہوتی ہے‘ خبر کی وقعت اور عمر ختم ہو چکی ہوتی ہے۔
اسی طرح الیکٹرانک میڈیا بھی ڈیجیٹل میڈیا کے پیچھے چلنا شروع ہوگیا ہے۔ جب تک الیکٹرانک میڈیا بریکنگ نیوز‘ ہنگامی خبریں‘ نیوز الرٹ اپنے باوثوق ذرائع سے حاصل کرتا ہے‘ وہ ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن چکی ہوتی ہیں۔ کوئی بھی موضوع جسے ہیش ٹیگ کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں ٹویٹ اور ری ٹویٹ کردیا جائے‘ وہی بریکنگ نیوز بن جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ الیکٹرانک میڈیا قیادت نہیں کررہا بلکہ ڈیجیٹل میڈیا کے پیچھے چل رہا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کی رسائی اور کوریج اتنی وسیع ہے کہ پرنٹ میڈیا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ذرا تصور کریں کہ ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم‘ جیسا کہ یوٹیوب‘ ویمو اور ٹویچ کو ناظرین نے 2020ء میں 27.9 بلین گھنٹوں تک دیکھا جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ پاکستان میں اگرچہ میڈیا ہائوسز نے اپنے اخبارات کے آن لائن ایڈیشن شروع کیے ہیں لیکن وہ ابھی تک میڈیا میں آنے والے طوفانی انقلاب کے سامنے ہاتھ پائوں مارتے دکھائی دیتے ہیں۔ اُن میں سے بہت سے اس تبدیلی کو قبول کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ آج بھی اپنا کاروبار چلانے کے لیے حکومت سے تعاون کے طلب گار رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں جن مرکزی تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہے‘ وہ یہ ہیں:
1۔ ناظرین چوائس چاہتے ہیں: روایتی میڈیا ایک راستہ تھا اور ہے۔ ٹی وی دکھاتا ہے‘ ریڈیو بولتا ہے‘ اخبار چھاپتا ہے۔ یہ دو طرفہ مواصلات نہیں۔ آج کے نوجوان ناظرین اور سامعین خبروں اور تفریح فراہم کرنے والوں کے ساتھ بات چیت کرنا‘ ان کے ساتھ گفتگو میں شریک ہونا اور تبادلہ خیال کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ان کے انتخاب کو پورا نہیں کیا جاتا ہے اور ان کے سوالات اور آرا کو شامل نہیں کیا جاتا تو وہ فوری طور پر سوئچ آف ہو جائیں گے۔ چنانچہ ایڈیٹر کے نام خطوط لکھنے اور ایک ہفتہ بعد شائع ہونے کی رسم متروک ہو چکی۔ یہی وجہ ہے کہ تمام سوشل میڈیا‘ یو ٹیوب چینلز اور ٹویٹر پر تبصروں کے سلسلے طویل اور نہ ختم ہونے والے ہوتے ہیں۔ ایک نوجوان اوسطاً اب سوشل میڈیا پر روزانہ تقریباً 5 یا 6 گھنٹے گزارتا ہے۔ پاکستان میں چوائس کی اس بے تابی کا مظاہرہ حال ہی میں دیکھنے میں آیا۔ جب حکومت نے ایک نجی ٹی وی چینل کی نشریات پر پابندی لگا دی‘ لوگ یو ٹیوب پر چلے گئے۔ وہ دن گئے جب سرکاری ٹی وی چینل پر حکمران جماعت کا غلبہ ہوتا تھا یا پھر حکم دیا جاتا تھا کہ کیا دکھانا ہے اور کیا نہیں دکھانا۔ یوٹیوب اور فیس بک لائیو سٹریمز کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ ناظرین کیا دیکھنا چاہتے ہیں اور کیا نہیں۔
2۔ ناظرین رابطہ چاہتے ہیں: یہ نسل زیڈ (زومرز) جنریشن کہلاتی ہے۔ یہ نسل زیادہ آواز اٹھانے‘ زیادہ باخبر رہنے اور زیادہ مطالبہ کرنے والی ہے۔ آج کل کے نوجوان نہیں چاہتے کہ اُنہیں صرف بتایا جائے بلکہ وہ خود پوچھنا اور بتانا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے تبصرہ کریں گے‘ سٹیٹس اَپ ڈیٹ کریں گے‘ پوسٹ کریں گے‘ تنقید کریں گے اور تعریف کریں گے۔ ان کے تبصرے دلکش بھی ہو سکتے ہیں اور جب وہ کسی ٹویٹ کو مخصوص تعداد میں ری ٹویٹ کرتے ہیں تو وہ ہیش ٹیگ ٹرینڈ بن جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ ہیش ٹیگ ٹرینڈز اتنے طاقتور ہو جاتے ہیں کہ تحریک کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ سامعین کی اس طاقت کی دو مثالیں‘ کورونا کے دور میں ”بلیک لائف میٹرز‘‘ ہیش ٹیگ تھی جو ایک تحریک بن گئی اور پاکستان میں تازہ ترین ہیش ٹیگ ”امپورٹڈ حکومت نامنظور‘‘ جسے ٹویٹر نے ریکارڈ توڑ تسلیم کیا کیونکہ اسے دس ملین بار ٹویٹ کیا گیا ہے۔ اس نے تحریک انصاف کو مقبولیت کی راہ پر گامزن کردیا اور اس تحریک کی وجہ سے وہ پنجاب میں ہونے والے انتخابات جیت گئی۔
3۔ عوام خود مواد تخلیق کرتے ہیں: سمارٹ فون ہاتھ میں لیے جوان ہونے والی نسل بہت سمارٹ ہے۔ ٹک ٹاک کی آمد نے گھریلو پروڈیوسرز‘ ڈائریکٹرز وغیرہ کی نسل تیار کی ہے۔ گھر کے ہر فرد کو ہر چیز پر وڈیو بنانے کا موقع ملتا ہے۔ اگرچہ بہت ساری فضول اور ممنوعہ چیزیں ہیں لیکن اس نے آواز اور ٹیلنٹ کو نچلی سطح تک آزاد کر دیا ہے۔ بہت سے اینکر پرسنز اپنے یوٹیوب مواد کے تخلیق کار بن چکے ہیں۔ بہت سے شوقیہ اپنے چینلز شروع کر چکے ہیں اور عوام سے آرا لیتے ہیں جو وائرل ہو جاتی ہیں۔ چونکہ یوٹیوب کو موناٹائز کیا گیا ہے‘ اس نے بہت سے مقبول اینکرز کو کروڑ پتی بنا دیا ہے۔
4۔ ہر فرد کے مطابق: سوشل میڈیا کا فائدہ یہ نہیں ہے کہ یہ سب کے لیے ایک مقصد پورا کرتا ہے بلکہ ہر صارف اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتا ہے۔ فیس بک اور دیگر پلیٹ فارمز کی ڈیٹا اینالیٹکس کی صلاحیت خبروں کی قسم‘ فروخت کی پیشکش‘ صارف کی خواہش کردہ مصنوعات بھیجتی ہے۔ اس نے مصنوعات کی فروخت کو زیادہ درست اور تشہیر کو زیادہ موثر بنا دیا ہے۔ ٹِک ٹاک سوشل کلاس‘ بیک گراؤنڈ اور مزاح کی اقسام کے مطابق وڈیو بناتی ہے۔ پیغامات بنانے میں اس شرکت نے ناظرین اور سامعین کی اونر شپ اور سٹیک کو بڑھا دیا ہے ۔
5۔ جعلی پوسٹ کی دنیا: سوشل میڈیا نے جعلی اور من گھڑت خبروں کا بھی طوفان برپا کردیا ہے۔ جعل ساز ی کرنے والی ٹیکنالوجی اتنی جدت اختیار کر چکی ہے کہ جعلی وڈیوز اصلی لگتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں کردار کشی ہوئی اور دنیا میں بے جا خوف و ہراس پھیل گیا۔ چنانچہ ”پوسٹ ٹریٹ ورلڈ‘‘ کی اصطلاح سامنے آئی۔ اس سے یہ بات سامنے آئی کہ تقریباً اتنی ہی تعداد میں جعلی خبریں حقیقی فیڈ کے طور پر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھیں۔ لیکن باقی میڈیا کی طرح‘ سوشل میڈیا کی بقا کا انحصار سچ کو جھوٹ سے چھانٹنے پر ہے۔ جیسے جیسے صارفین ہوشیار ہوتے جارہے ہیں اور ٹیکنالوجی زیادہ درست ہوتی جارہی ہے‘ جعلی دنیا کے بعد کی دنیا بھی جدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ پہلے ٹی وی پر اینکر آ سکتے تھے‘ یا سیاستدان کچھ بھی دعویٰ کر سکتے تھے اور تصدیق کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ اب تو انٹرویو ختم ہونے سے پہلے جھوٹے دعوے صارفین خود جمع کرتے ہیں اور تمام پلیٹ فارمز پر پوسٹ کر دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں اب بھی میڈیا ان انقلابی حرکیات کے سامنے مزاحمت کر رہا ہے۔ حکومت اب بھی معلومات کی بدلی ہوئی دنیا سے بدکتی ہے۔ وہ اب بھی میڈیا پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کے بوتل سے نکل جانے والے جن کو قابو نہیں کر سکتی۔ ٹک ٹاک پر لوگوں کی مہارت کو دبا نہیں سکتی۔ سچ کو جھوٹ کے پیچھے نہیں چھپا سکتی۔ یہ احساس حکومت کو ابھی تک نہیں ہوا جبکہ آج کے دور میں کوئی بھی شخص سوشل میڈیا کی اہمیت‘ افادیت اور ضرورت سے انکار نہیں کر سکتا۔ دورِ جدید سوشل میڈیا کا ہے اور اس کے اہمیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ آج کے دور میں سوشل میڈیا کے بغیر زندگی کا تصور ناممکن لگتا ہے۔ سوشل میڈیا نے ترسیل کو وسعت بخشی ہے۔ آج آپ دنیا کے کسی کونے میں بیٹھے ہوئے ایک کلک میں دنیا بھر کی معلومات سے باآسانی واقف ہو سکتے ہیں۔ اس کے ذریعے ناصرف مواصلات میں انقلاب آیا ہے بلکہ کاروبار اور اشتہاری دنیا میں بھی زبردست انقلاب برپا ہواہے۔ پراپیگنڈے کے اصول بدل چکے ہیں۔ جنگیں اب سائبر سپیس میں لڑی جاتی ہیں۔ خبریں اب سامعین کے ذریعہ تیار کی جاتی ہیں۔ پیسہ اب موناٹائزڈ انسٹاگرام اور یوٹیوب کے ذریعے خرچ کیا جاتا ہے۔ سامعین بدل گئے‘ اشراف نہیں بدلے۔ وہ مصنوعات جو تبدیل نہیں ہوتیں‘ ملبے میں بدل جاتی ہیں۔(بشکریہ دنیانیوز)