تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جی ڈی آئی سی سکینڈل فیصلے میں ڈیفالٹر کمپنیوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ دس برس سے جو چار سو ارب روپے سے زائد دبائے بیٹھی ہیں وہ واپس کریں گی۔
اس سکینڈل کی وجہ سے مجھے اور عامر متین کو ذاتی قربانیاں دینا پڑیں۔ ہمیں دبائو کی وجہ سے چینل کی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ہمارا ٹی وی شو بند کرا دیا گیا۔ ارشد شریف، محمد مالک، سہیل بھٹی، شہباز رانا اور دیگر نے بھی فالو اپ شوز کیے لیکن نزلہ میرے اور عامر متین پر گرا کیونکہ سٹوری ہم نے بریک کی تھی۔ میرا اور عامر متین کا اپنے پروگرامز میں یہ موقف تھا: کیسے ممکن ہے کہ ایک ٹیکس لگایا گیا اور اس حوالے سے جو اربوں روپے متعلقہ کمپنیوں نے عوام سے بجلی، گیس، کھاد کی مد میں وصول کئے‘ حکومت وہ محض اس لئے معاف کر دے کہ خیر ہے اگر یہ کمپنیاں دو سو ارب روپے ہڑپ کرنا چاہتی ہیں تو کرنے دیں‘ باقی رقم تو مل رہی ہے۔ یہ بات ہمیں ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ کس اصول کے تحت قوم کے دو سو ارب روپے معاف کر دیئے گئے۔
جب ہم نے اس معاملے کو اٹھایا تو حکومت کی طرف سے شدید ردعمل آیا‘ جس کی ہمیں توقع نہ تھی۔ وزیر اعظم کو بتایا گیا تھا کہ برسوں سے یہ مقدمات عدالتوں میں پڑے ہیں اور کسی صورت یہ پیسے ریکور نہیں ہوں گے لہٰذا دو سو ارب معاف کر دیں اور دو سو ارب لے لیں۔ یہ ڈیل اس وقت کے وزیر خزانہ اسد عمر نے ای سی سی کے اجلاس میں منظور کی تھی۔
اندازہ کریں‘ متعلقہ ساری کمپنیاں دس برس400 ارب روپے استعمال کرتی رہیں‘ اور حکومت دنیا بھر سے بھاری سود پر قرضے لیتی رہی۔ وہ کمپنیاں 400 ارب بینک میں رکھ کر منافع کماتی رہیں یا کسی اور کاروبار میں لگا کر اربوں مزید کمائے۔ خبر بریک کی تو اس پر ری ایکشن آیا۔ وزیر اعظم نے وزیروں کو کہا کہ وہ اینکرز کو بلا کر سمجھائیں کہ ان کاروباری لوگوں کو دو سو ارب روپے معاف کر کے دو سو ارب روپے نکلوانا کتنا نیک کام ہے۔ عمر ایوب، ندیم بابر نے بریفنگ دی۔ اس وقت تک آرڈیننس جاری ہو چکا تھا۔ اس موقع پر محمد مالک نے کہا: جس سمری پر دو سو ارب روپے معاف کرنے کی منظوری کابینہ نے دی تھی‘ اس میں تو وزارت قانون سے رائے ہی نہیں لی گئی تھی کہ ہم یہ کرنے جارہے ہیں‘ غلط یا درست؟ عمر ایوب نے جواب دیا: ہم نے سوچا جنہوں نے رائے دینا ہو گی وہ کابینہ اجلاس میں دے دیں گے۔
ہم سب حیران کہ چار سو ارب روپے کا فیصلہ ہو رہا تھا اور وزارت قانون سے رائے لینے کی زحمت ہی نہیں کی گئی۔ میں نے عمر ایوب سے کہا: آپ کا خاندان دہائیوں اقتدار میں رہا ہے‘ آپ نے اس سمری کی منظوری کیسے دے دی جس میں وزارت قانون سے رائے تک نہیں لی گئی تھی؟ آپ پر نیب کا کیس بنے گاکہ دو سو ارب روپے کمپنیوں کو معاف کر دیا جو عوام کا پیسہ تھا اور وزارت قانون کی رائے تک اس میں شامل نہ تھی۔ میں نے مزید کہا: آپ نے وزیر اعظم کے خلاف مضبوط مقدمے کی بنیاد بنا دی ہے۔ نواز شریف، گیلانی یا زرداری اور راجہ پرویز اشرف پر یہی مقدمات بنتے آئے ہیں کہ انہوں نے اختیارات سے تجاوز کیا اور عوامی پیسے کا ضیاع کیا۔ ان پر تو چند ارب کے الزامات تھے یہاں تو پورا دو سو ارب روپیہ معاف کر دیا گیا تھا۔ اگلی حکومت وزیر اعظم پر دو سو ارب روپے اپنے دوستوں کی کمپنیوں کو معاف کرنے کا مقدمہ بنائے گی‘ یہ تو بنا بنایا نیب کا مقدمہ ہے‘ جس میں آپ سب لوگ پھنس جائیں گے۔
عامر متین نے اس پر تڑکا لگایا: آپ کے ساتھ جو ندیم بابر صاحب بیٹھے ہیں‘ ایک تو ان کا غیر ملکی پاسپورٹ ہے‘ دوسرے یہ سپیشل اسسٹنٹ ہیں۔ ان کے کسی سمری پر دستخط نہیں ہیں۔ انہوں نے بیگ اٹھانا ہے اور اڑ جانا ہے۔ پکڑے آپ کے وزیر اعظم اور کابینہ کے وزیروں نے جانا ہے۔
عمر ایوب نے میری طرف دیکھا۔ ان کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا اور دوسرا جارہا تھا۔ ان کے منہ سے صرف اتنا نکلا: جی رئوف بھائی آپ کی بات سمجھ رہا ہوں۔
میں نے کہا: آپ بار بار کہہ رہے ہیں‘ سینکڑوں سٹے آرڈرز عدالتوں نے ان کمپنیوں کو دے رکھے ہیں‘ لہٰذا مجبوری ہے ہم ڈیل کر لیں‘ حکومت نے دو سو ارب روپے معاف کرنے سے پہلے سپریم کورٹ کو خط لکھا؟ چیف جسٹس صاحب سے بات کی کہ چار سو ارب روپے عدالتوں میں سٹے کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں‘ لہٰذا فیصلہ دیں یا آپ نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ وہ یہ معاملہ چیف جسٹس کے سامنے اٹھائیں یا پھر وزارت قانون نے صوبوں میں ایڈووکیٹ جنرلز کے ذریعے صوبائی عدالتوں میں اس معاملے کو اٹھایا؟
عمر ایوب بولے: جی نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ میں نے کہا: پھر تو یہ ڈاکا ہے کہ بغیر عدالتوں سے رابطہ کیے آپ لوگوں نے دو سو ارب روپے محض سٹے آرڈر کے ڈر سے معاف کر دیا ہے۔ یہ تو فراڈ ہے۔ یہ سکینڈل ہے۔ یہ دھوکا ہے قوم کے ساتھ اور آپ سب لوگ اس میں پھنسیں گے۔
اس پریس بریفنگ کے بعد عمر ایوب اور ندیم بابر وزیر اعظم سے ملے تو ان تک رپورٹ پہلے پہنچ چکی تھی کہ وزیروں نے اینکرز کو کیا مطمئن کرنا تھا‘ الٹا انہوں نے تو وزیروں کے رنگ اڑا دیے ہیں۔ جب وزیر اعظم تک یہ باتیں پہنچیں کہ کیسے یہ دو سو ارب روپے معاف کرنے کا ان پر مقدمہ بن سکتا ہے تو انہوں نے فوراً کہا: یہ آرڈیننس واپس لے لو؛ تاہم وہ سخت ناراض تھے کہ میڈیا نے دبائو ڈالا ہے۔ اگلے دن آرڈیننس واپس لے کر ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ حکومت سپریم کورٹ جا رہی ہے‘ لیکن ساتھ ہی خبردار کیا گیا کہ وہ کیس ہار بھی سکتی ہے اور اس صورت میں یہ دو سو ارب روپے بھی نہیں ملیں گے۔ مطلب یہ تھا کہ کیس ہار گئے تو سب ملبہ میڈیا پر ڈال دیا جائے گا۔ تب میں نے ایک شو میں کہا تھا: یہ تو ہارنے کے لیے عدالت جا رہے ہیں۔ وہی ہوا عدالت میں جس طرح بے دلی سے کیس لڑا گیا‘ اس پر ججوں نے بھی ریمارکس دیے۔ کبھی پیشیوں سے غائب تو کبھی دلائل دینے کی پوری تیاری نہ تھی۔
یہ تو اللہ بھلا کرے جسٹس فیصل عرب اور جسٹس مشہیر عالم کا جنہوں نے چار سو ارب روپے واپس دلوائے ورنہ حکومت خوش نہیں ہے۔ آپ نے دیکھا‘ حکومت کی طرف سے چار سو ارب روپے کا فیصلہ حق میں آنے پر خوشی منائی گئی ہو؟ وزیر اعظم نے رسماً ایک ٹویٹ کرکے فیصلے کو ویلکم کیا۔ تین ارب ڈالرز کے لگ بھگ پیسہ واپس ملا لیکن لگتا ہے جیسے افسوسناک واقعہ ہو گیا ہو۔ وجہ وہی تھی کہ چندہ دینے والے دوستوں کو اربوں معاف کر دیے گئے تھے‘ لیکن میڈیا کی وجہ سے عدالت جانا پڑا اور حکومت مقدمہ جیت گئی۔ حکومت یہ مقدمہ جیتنے پر جتنی افسردہ ہے اس پر حیرانی ہے۔
خوشی اس بات کی ہے کہ اللہ نے عزت رکھ لی۔ ہمارا موقف عدالت نے درست قرار دیا۔ جو بات دو تین ٹی وی اینکرز اور سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کو سمجھ آرہی تھی وہ وزیر اعظم اور کابینہ کے پچاس وزیروں کو کیوں نہیں آ رہی تھی؟ اگر وہ یہ سامنے کی باتیں بھی نہیں سمجھ سکتے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ ویسے قوم کے دس برسوں سے ڈوبے 400 ارب روپے کی واپسی کے لیے مجھے اور عامر متین کو زیادہ نہیں بس اپنی نوکریوں ،لاکھوں کی تنخواہوں ، ٹی وی شوز اورکیریئرز کی قربانی دینا پڑی۔
حکمران نااہل ہیں یا جانتے بوجھتے دو سو ارب روپے ڈاکے میں شریک تھے، دونوں صورتوں میں یہ جرم ہے۔ نااہلی بھی بڑا جرم ہے۔ ویسے اللہ کی شان ہے وہی لوگ اس فیصلے کو ویلکم کر رہے ہیں جو میڈیا پر برس رہے تھے۔ مجھے اور عامر متین کو نوکریوں سے فارغ اور ہمارے ٹی وی شوز بند کرا رہے تھے۔ اوئے کون لوگ او تُسی؟(بشکریہ دنیانیوز)۔۔