تحریر: شعیب واجد
پاکستان میں میڈیا اس وقت جن حالات سے دوچار ہے،ایسا پہلے کبھی دیکھا نہیں گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں ورکرز بے روزگارکردیئے گئے ہیں،اداروں نے اس چھانٹی کی وجہ یہ بتائی ہے کہ ان کے پاس تنخواہیں ادا کرنے کیلئے پیسے نہیں ہیں ۔
لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ تمام چینلز یہ بات جانتے تھے کہ یہ بحران کب اور کیسے پیدا ہوگا اور انہیں اس کے بعد کیا کرنا ہے۔ہوا یہ تھا کہ آج سے چھ سات ماہ قبل اطلاعات آئیں تھیں کہ میڈیا کے کرتا دھرتاؤں نے اپنے اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ چینلز کے ’’متوقع بحران‘‘ اور حکومت کی اس حوالے سے’’ لاتعلقی ’’کی بنا پر انہیں اپنے اخراجات میں کمی اور اسٹاف کی تعداد کو کم کرنا ہوگا۔
میڈیا کے کرتا دھرتاؤں کےاس فیصلے کا اثر جلد ہی نظر آنے لگا اور مختلف ٹی وی چینلز سے باری باری اسٹاف کو نوکریوں سے نکالا جانے لگا۔اس دوران یہ بھی اطلاعات آئیں کہ کچھ چینلز نے ملازمین کو نکالنے میں تاخیر کی تو دوسرے چینلز نے انہیں ان کا وعدہ یاد دلا کر جلدی کارروائی کیلئے دباؤ بھی ڈالا۔اور پھر وہاں سے بھی ورکرز فائر ہونا شروع ہوگئے۔۔
اے آر وائی کے بعد چینل نائنٹی ٹو نیوزان حالات میں وہ واحد چینل تھا ،جس نے ملازمین کی برطرفی سے گریز کیا،اے آر وائی نیوز پرتو میڈیا کے ان کرتا دھرتاؤں کا کوئی اثر نہیں چلتا۔تاہم چینل نائنٹی ٹو نیوز کو اپنے ورکرز کو بے روزگار نہ کرنے کی پالیسی پر اسے بعض چینلز مالکان کی جانب سے طعنوں طشنوں کا سامنا رہا،تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ میڈیا کے ان کرتا ھرتا افراد کا چینل نائنٹی ٹو پر دباؤ شدید ہوچکا ہے اور نائنٹی ٹو سے کہا جارہا ہے کہ وہ بھی ورکرز کو نکال باہر کر کےمیڈیا بحران میں اپنا حصہ ڈالیں ۔
اگر مندرجہ بالا اطلاعات درست ہیں تو پھر کوئی شک باقی نہیں رہ جائے گا کہ میڈیا بحران میں ایک مصنوعی رنگ بھی شامل ہے۔جس کا مقصد صحافیوں کو بے روزگار کرکے اور ان بے روزگاروں کی حالت زار حکومت کو دکھا کر حکومت کو مطالبات ماننے پر مجبور کرنا ہے۔یہ ایک ایسی شرمناک حکمت عملی ہے جس میں میڈیا کے اداروں نے ورکرز کا مستقبل داؤ پر لگا دیا۔
بعض نیوز چینلز نے دوسری سنگین حکمت عملی یہ بھی اپنائی ہے کہ جن ورکرز کو نوکریوں سے نہیں نکالا گیا، ان ورکرز کو چار، چار ماہ سے تنخواہیں ہی ادا نہیں کی جارہیں ۔اسکامقصددنیا کو یہ دکھانا ہوسکتا ہے کہ ان کی حالت یہ ہے کہ پیسہ ہی نہیں ،اورادارے اب بند ہونے کے قریب ہیں۔
میڈیا ورکرز کی حالت زار سے حکومت کو بلیک میل کرنے کی پالیسی کی سنگینی اپنی جگہ ۔لیکن ان چینلز نے دوسری طرف حکومت سے ایک ایسی جنگ کا آغاز بھی کردیا ہے جس میں آر یا پار کے علاوہ کوئی درمیانہ راستہ نہیں ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چینلز کی آر یا پار کی پالیسی کیا ہے؟ صحافت سے وابستہ لوگ، پڑھے لکھے عوام اور ریاست پر نظر رکھنے والے ادارے اس بات کو شدت سے محسوس کررہے ہیں کہ نام نہاد میڈیا بحران کا شکار بعض چینلز کی نیوز پالیسی پچھلے چند ماہ سے انتہائی خطرناک ڈگر پر گامزن ہوچکی ہے۔یہ چینلز اپنی نشریات میں سیاسی محاذ آرائی کو خوب جگہ دے رہے ہیں،حکومت اور حزب اختلاف کے سیاسی بیانات کو خبروں میں خوب جگہ دی جارہی ہے،جس سے ملک میں بظاہر سیاسی افرا تفری کے تاثر کو جنم دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ٹاک شوز میں ایسے سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کو مدعو کیا جارہا ہے، جو سیاسی بیان بازیوں پر جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں۔دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ بعض چھوٹی خبروں کو بحرانی خبریں بنا کر پیش کیا جارہا ہے،مثال کے طور پر معیشت کے حوالے سے کوئی منفی بیرونی خبر یا بیان سامنے آجائے تو اسے سارا دن بار بار ٹی وی پر چلایا جاتا ہے۔
ان ہی دنوں میں یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ سوشل میڈیا میں مختلف جماعتوں کے سیاسی ونگ بھی اچانک بہت فعال ہوگئے ہیں،جیسے انہیں تازہ ایندھن مہیا ہوگیا ہو۔سوشل میڈیا پر جاری یہ مہم بھی الیکٹرونک میڈیا پر جاری نشریات سے ہم آہنگ معلوم ہورہی ہے۔
حالیہ پاک بھارت سخت کشیدگی میں بھارت کی جانب سے بھی پاکستان کے خلاف کئی منفی ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں،جن میں جنگی کارروائیوں کے علاوہ، داخلی بدامنی اور معاشرتی بے چینی پیدا کرنے جیسے محاذ شامل ہیں۔
ان میں سے آخر الذکر محاذ وہ ہے جس میں بھارت پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پرخطرناک کھیل کا آغاز کر چکا ہے،اور اس محاذ پر بھارت کو دانستگی میں یا نادانستگی میں ہمارے ہی کچھ عناصر کی مدد ملنا شروع ہوگئی ہے۔ظاہر ہے اگرہمارے بعض حلقوں کی جانب سے میڈیا یا سوشل میڈیا پر سیاسی افراتفری کا تاثر دیا جائےگا تو وہ یقیناً ان حالات میں بھارت کے حق میں ہی جائے گا، اسی طرح پاکستان کی سیاست اور معیشت سے متعلق منفی خبروں کو نمایاں کرنا بھی بھارت کو ہی فائدہ پہنچائے گا۔
پلواما حملے کے بعد مودی نے صاف کہا تھا کہ یہ فیصلہ بھارت کو کرنا ہے کہ پاکستان سے کب اور کس انداز میں بدلہ لیا جائے۔مودی کے اس بیان کی روشنی میں ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ہم میڈیا والے اور سوشل میڈیا کے ایکٹی وسٹ،کیا مودی کے ان عزائم کو کمزور کررہے ہیں یا الٹا اس کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں۔
آخر میں حکومت سے بھی یہ اپیل کرنی ہے کہ میڈیا بحران کو حل کرنے اور بے روزگار صحافیوں کی ملازمتوں پر بحالی کا بندوبست کیا جائے۔تاہم اس امر کی انکوائری بھی ضرور کرائی جائے کہ یہ بحران کتنا حقیقی تھا اور کتنا اسے جانتے بوجھتے بڑھایا گیا۔نیوز چینلز کا یہ حق ہے کہ ان کا مالی بحران اگر حقیقی ہے تو حکومت ان کی مدد کرے، لیکن اگر اس معاملے میں خود میڈیا چینلز کی زرا سی بھی سازش ثابت ہو تو ان سے بھی قانونی طور پر اس کا جواب طلب کیا جائے۔
(شعیب واجد)