media ka bohran wajuhaat by muhammad zakariya muhiuddin

میڈیا کا بحران۔۔۔وجوہات؟؟

تحریر: محمد زکریا محی الدین

پچھلے کچھ دنوں سے یہ خبریں برابر آرہی ہیں کہ فلاں چینل سے اتنے لوگ نکال دئے گئے ڈھمکاں چینل سے اتنے لوگ نکالے گئے۔ یہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہے کیونکہ میڈیا کارکنان کے سامنے ایک تاریک مستقبل کھڑا ہے۔ ایک تیزی سے ابھرتی ہوئی پرائیویٹ  چینل انڈسٹری کا یہ حال ہونا نہیں چاہئے تھا مگر کیا کریں ہمارے ملک میں انہونی ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ۔ اس مضمون میں،ان وجوہات پر روشنی ڈالی جا رہی ہے جو میرے تجزیہ کے مطابق اس انڈسٹری کے زوال کا باعث بنی۔

اس تابوت میں پہلا کیل میڈیا لاجک نامی ریٹنگ ایجنسی کا بند ہونا ہے۔ میں کافی عرصہ سے دوستوں میں اور شائد عمران  جونیئر ڈاٹ کام پر بھی لکھ چکا ہوں کہ میڈیا لاجک سارا کھیل انتہائی چھوٹے نمونے پر کھیل رہا ہے۔ پیپلز میٹرز کہا جاتا ہے کہنوسو جگہوں یا گھروں پر نصب ہیں مگر ایک تو یہ تعداد مشکوک ہے دوسرے ۱۱ کروڑ کی آبادی میں سے ریٹنگ کا فیصلہ نوسو افراد کے ٹیلیوژن دیکھنے کی عادت پر رکھنا ایک مذاق سے ذیادہ کچھ بھی نہیں ۔ ملک کی سب سے بڑی میڈیا بائینگ ہاؤس کے پاس بھی ان ریٹنگ پر اعتبار کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا ۔ مگر بات اگر صرف ریٹنگ پر ہی رہتی تو بھی گزارہ تھا ۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق چینل اور میڈیا لاجک کے درمیان بھی کچھ ان کہی داستانیں ہیں جس میں کبھی کبھی کچھ چینلوں کو فائدہ بھی پہنچایا جاتا تھا ۔ میرے پاس ایک انتہائی معروف نیوز چینل کے شعبہ سیلز کے سینئر اور بہت پرانے صاحب کی ایک ریکارڈنگ محفوظ ہے جس میں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ مذکور ایجنسی سے بزنس لیا نہیں جاتا تھا بلکہ خریدا جاتا تھا ۔ اس صورتحال میں نقصان کس کا ہوا ؟ یقینی طور پر ان کلائینٹس کا جو اس بڑی ایجنسی کے ذریعہ میڈیا خریدتے ہیں اس اعتبار کے ساتھ کہ ان کا پیسہ صحیح جگہ خرچ کیا جائے گا ۔

تابوت میں دوسری کیل یہ ہے کہ ۔۔میڈیا مالکان کا غیر پیشہ ور ہونا ۔ علاوہ جنگ ، نوائے وقت اور خبریں کے کونسا چینل ہے جس کے مالکان پیشہ ور صحافی ہیں ؟ باقی آج  نیوزکو میں اس فہرست میں اس لئے نہیں لیتا کیونکہ بزنس ریکارڈر ایک کاروباری اخبار ہے۔ ان مالکان کے سامنے میڈیا کے گدھ جو تصویر پیش کرتے رہے یہ اس پر آمنا صدقنا کہتے رہے۔ ان کے نزدیک چینل ہوسٹ پر چلتے ہیں ۔ یعنی خبر کی کوئی اہمیت نہیں، موضوع کی کوئی اہمیت نہیں، بس آپ حامد میر یا کامران خان کو بٹھا دیں چینل چل پڑے گا ۔ یادش بخیر جب ہم جیو میں تھے تو میر ابراہیم رحمان کو کہتے رہے کہ آپ عفریت بنا رہے ہیں ۔ انہوں نے خاکسار کی بات سمجھی اور مانی تو ہم نے جنگ میں جانے والے تمام اشتہارات سے ہوسٹ کی تصویر نکلوا دی۔ اس پر ایک طوفان اٹھ گیا تھا ۔ ایک مزے کی بات یاد آئی ایک محترمہ جو آجکل ڈراموں کے ذریعہ لوگوں کی الجھنیں سلجھا رہی ہیں نے ایک دفعہ ہماری شکائت اس لئے کی کہ ان کی نئی تصویر نہیں لگائی گئی۔ خاتون کا ایک دفعہ مرحوم فیشن انچارج سے اس واسطے جھگڑا ہو گیا تھا کہ انہوں نے میگ میں ان خاتون کا غیر موزوں فوٹو شوٹ لگوا دیا ۔ بھئی آپ نے کھنچوائی کیوں؟ خیر ۔ غیر صحافی چینل مالکان کو یہ بات باور کروائی گئی کہ ہوسٹ چینل چلاتا ہے۔ ہم نیوز پر ندیم ملک کی آمد اس کی تازہ مثال ہے۔ اس کے علاوہ چینل مالکان نے عوام کی دلچسپی کی خبریں یا پروگرام چھوڑ کر ایسے موضوعات پر توجہ دینا شروع کردی جو عوام کی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ عوام کو سادہ اور آسان باتیں سمجھ آتی ہیں ان کو دنیا کے معاشی بحران میں امریکہ کے کردار میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ عنصر غالب آگیا ۔

جو سب سے بڑا مسئلہ ہوا وہ یہ کہ پچھلے دس سالوں میں ایک نئی نسل جوان ہو گئی جن کا معلومات حاصل کرنے کا زریعہ اخبار ہے اور نہ ہی نیوز چینل۔ ان کے پاس سوشل میدیا سے خبر کہیں جلدی پہنچ جاتی ہے۔ اس نئے رجحان یا یوں کہیں معلومات حاصل کرنے کے ذریعہ کی تبدیلی کی وجہ سے نیوز چینلوں کی ریٹنگ میں بہت ذیادہ فرق پڑ گیا ۔ اب کس کے پاس وقت ہے کہ وہ گھر جائے ٹی وی کھولے اور ایک خبر سب چینلوں پر دیکھے؟ میں خود نہیں دیکھتا کیونکہ خبر آہی جاتی ہے۔ یہ تبدیلی چینل مالکان سمجھ نہیں پائے۔ یا سمجھنا چاہتے نہیں تھے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ خبر یعنی کانٹینٹ پر زور دیتے۔۔ بجائے کسی کی بھی تقلید کرنے کہ اپنے رپورٹرز اور ہوسٹوں سے کہتے کہ بھیا ایسی خبر لائیں جس میں عوام کو دلچسپی ہو اور وہ کسی اور چینل کے پاس نہ ہو ۔ ہو سکتا ہے کہ پڑھنے والے میری اس بات کا مذاق اڑائیں مگر ہونا یہی چاہئے تھا ۔ مگر مالکان اپنی دھن میں لگے رہے اور ایک دن آیا کہ ان کی کشتی کا بوجھ اتنا بڑھ گیا کہ اس میں سے لوگ نکالے بغیر کوئی اور چارہ نہیں رہا ورنہ پورا سفینہ ہی ڈوبنے کا ڈر تھا ۔

جہاں تک نیوز چینلوں کے مستقبل کا سوال ہے تو ہمیں یہ کوئی بہت اچھا لگ نہیں رہا ۔ جب تک میری والی نسل باقی ہے اخبار بکتے رہیں گے مگر مجھ جیسے کئی بڈھے بھی اب واٹس ایپ یا فیس بک پر خبر دیکھ لیتے ہیں جس کی تفصیل بھی سامنے آجاتی ہے۔ تو بھائی کون گھر جا کر ٹی وی لگائے اور چینل بدل بدل کر دیکھے۔ (محمدزکریا محی الدین)۔۔

(مذکورہ تحریر سے ہماری ویب سائیٹ کا متفق ہونا ضروری نہیں، علی عمران جونیئر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں