تحریر:قمرزمان
نتھوگینگ دہشت کی علامت بن چکا تھا، وہاڑی کے قریب ایک گاؤں ڈاکوؤں کا گڑھ ماناجاتا تھا۔۔آئے روز اخبارات میں نتھوگینگ کے جرائم شائع ہوتے۔ قتل، ڈکیتی، اغوابرائے تاوان اورکئی سنگین جرائم نتھو گینگ کا کارنامہ قرار دیئے جاتے تھے۔۔سنسنی خیز کہانی بن سکتی تھی، گاؤں دیہات میں ڈاکوراج۔۔ملتان میں ٹی وی چینل کا ریجنل ہیڈ اور بیوروچیف ہونے کے ناتے اسٹوری فائل کرنے کی ٹھان لی۔۔وہاڑی کے متعلقہ تھانے میں فون کرکے نتھوگینگ کی معلومات لیں۔ایس ایچ اونے خودہی پیشکش کردی۔۔نتھوگینگ کے علاقے میں پہنچائے گا۔جرائم کی پوری داستان فلمانے کابندوبست کردے گا۔۔سوچاجاکرپروگرام ہی کرلیتاہوں ۔خبربھی نکل آئے گی گویا۔۔۔ ایک تیرسے کئی شکارتیارتھے۔کیمرامین کوساتھ لیا۔ملتان سے سوکلومیٹر دورمتعلقہ تھانے پہنچ گیا۔ ایس ایچ اوانتہائی خوش اخلاق اوردیدہ دلیرآدمی تھا۔۔۔ چائے پلانے کے بعدعلاقے میں سیکیورٹی الرٹ کرنے کاکہااوراپنے خاص مخبرکوہمارے ساتھ بھیج دیا۔وہاڑی شہرسے نکل کرہم فصلوں کے درمیان بل کھاتی چھوٹی سی سڑک پرآگئے۔ایک موڑپرمخبرنے گاڑی رکوائی۔۔ہمیں بتایا کہ۔۔ نتھو گینگ نے یہاں پرآٹھ افرادکاقتل کیاتھا۔ میں نے وہیں پرکھڑے ہوکرتفصیلات اپنی زبان میں ریکارڈ کرلیں۔۔ پھر آگے بڑھے۔۔ پکی سڑک ختم ہوئی۔ کچاشروع ہوگیا۔مخبرنے عصرکے وقت دریائے ستلج کے کنارے پہنچادیا ۔جہاں دوردورتک کوئی نہیں تھا۔ ایک کشتی کھڑی تھی۔ دوگھوڑے ایک درخت کے ساتھ بندھے دیکھے۔۔مخبر نے بتایا کہ۔۔یہ گھوڑے ڈاکوؤں کے ہیں۔۔ وارداتیں کرکے اسی کشتی پر سامان یہاں لایاجاتا ہے۔۔اس پارگھڑسوارساتھیوں کی مددکیلئے پہلے سے ہی تیارہوتے ہیں۔دریاپاردوسراتھانہ لگتاہے ۔اس طرف کی پولیس دریا پار نہیں کرتی اور اس پار پولیس ہروقت تعینات نہیں رکھی جاسکی۔وارداتیں بہ آسانی ہوجاتی ہیں۔ پولیس نہ ادھر کچھ کرسکتی ہے نہ ادھر۔۔ہمارے پاس شوٹنگ کیلئے وہاں دو گھوڑے، پرانی چپو والی کشتی اورڈوبتے سورج کی روشنی میں دریاکامعنی خیز منظرتھا۔کیمرے میں قیدکرکرلیا۔اپنی ہی آوازمیں ملنے والی معلومات ریکارڈکرائیں۔۔آگے بڑھ گئے، دریا سے واپسی پرپھرکچے راستے تھے۔حدنگاہ کھیت تھے اوربیچ میں سانپ کی مانند ایک راستہ ۔
گاڑی چلاتے ہوئے ایک اور گاؤں پہنچے۔۔کیکر کے درختوں کے بیچ کا راستہ چند گھروں کے سامنے ٹیوب ویل کے کنویں کے پاس ختم ہوگیا۔ سامنے پکی اینٹوں اور گارے سے بناوسیع کمرہ تھا۔۔دروازے پر دودرجن سے زائد لوگ جمع تھے۔۔ ایک معذورشخص بھی وہیل چیئرپربیٹھاہمارا انتظار کرتاپایا گیا۔ مخبرہمیں انھیں کے درمیان لے گیا۔۔ہر شخص کے پاس نتھوگینگ کے جرائم کی تفصیلات تھیں۔ کوئی بھینسیں چرانے میں ملوث بتاتاتوکوئی قاتل۔ معذورشخص نے بتایا کہ نتھو گینگ نے حملہ کرکے اسے معذورکردیاتھا۔عدالتیں فیصلہ نہیں سنارہیں۔قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔۔پولیس تحفظ نہیں دے رہی۔۔کوئی سننے والا نہیں۔۔سبھی کے “ساٹس” سنسنی خیز تھے۔۔شام ہوچکی تھی۔۔رات کے وقت آگے بڑھناخطرے سے خالی نہیں تھا۔ مخبرکی اطلاع پرہم واپس شہرآگئے۔ رات وہیں پرقیام کیا۔اگلی صبح مخبرنے ہی ہمیں جگایا ۔نتھو گینگ کے سربراہ کے پاس لے چلو۔۔۔اس کا بھی موقف لیں گے۔۔میرے مطالبے پرمخبرچونکا۔۔پھر ایس ایچ اوسے اجازت لینے کاکہہ کرچلاگیا۔تھوڑی دیربعدواپس آکرجواب” ہاں“ میں دیا۔۔ صبح دس بجے پھر کچے راستوں پرنکلے۔ لہلاتے کھیتوں سے گزرتے ہوئے ایک اچھے خاصے بڑے قصبےمیں پہنچایاگیا۔۔ لوگ انتہائی انہماک سے ہمیں اورہمارے ساتھ آنے والے مخبرکودیکھ رہے تھے۔ مخبر کوہرکوئی سلام کرتاہمارے کیمرے کو دیکھ کرسبھی کوفکرتھی کہ آخر ہوکیارہاہے؟۔
چھوٹی سی گلی میں کوئی دوفرلانگ پیدل چلتے ہوئے ایک گھرکے سامنے رکے۔دوفرلانگ کے راستے میں ہمارا چار آدمیوں کاقافلہ بڑھ کردودرجن کے لگ بھگ لوگوں میں بدل گیا۔ہم چاروں انھی کے گھیرے میں آگے بڑھ رہے تھے۔ تھوڑی دیرپہلے غائب ہونے والامخبر ایک گھرکے دروازے پرموجود تھا۔۔اس گھرکی چاردیواری کے بیچ بھینسوں ،بکریوں اورگھوڑوں کاباڑہ نظرآرہاتھا۔ بھینسوں کے قطار کے آخرمیں چھوٹا سا دروازہ اس باڑے کے مالکان کامکان ہونے کاپتہ دے رہاتھا۔۔یہ مکان بھی پکی اینٹوں اورکچے گارے سے بناہواتھا۔دروازے پرٹاٹ کاپردہ لٹکاتھا۔۔جانوروں کے درمیان بڑی سی دوچارپائیاں خالی تھیں۔ہم چاروں کووہاں بٹھادیاگیا۔۔۔پہلے ایک بوڑھی خاتون آئیں۔۔تعارف کرایاگیا یہ نتھوگینگ کے سربراہ نتھو کی ماں ہے۔۔میں نے مائیک سیدھاکیا۔سوالات کردیئے۔ظاہر ہے ماں تونہیں مانتی کہ اس کابیٹامجرم ہے۔ ریکارڈنگ کے بعددوبارہ چارپائی پربیٹھ گئے۔۔تھوڑی دیر بعد تین نوجوان آئے۔۔تعارف نتھوکے بیٹوں کی حیثیت سے کرایاگیا۔۔انہوں نے بھی وہی کہا جوماں نے کہا۔۔۔۔ گینگ ہونے کاالزام مستردکرتے ہوئے ذاتی دشمنی پر مقدمات کادعویٰ کیا ۔۔کوئی آدھے گھنٹے بعدپچاس سے ساٹھ سال کی درمیانی عمرکے مضبوط جسم کامالک اورسیاہی مائل رنگت کا شخص سرپرپٹکاباندھے ہماری طرف بڑھا۔سلام دعاکے بعد بتایاگیایہیں ہے نتھوجس کے نام پر نتھو گینگ مشہور ہے۔۔
کئی سوالات ہوئے۔ قتل کے ، اغواکے، پرانی دشمنی کے، معذورشخص پرفائرنگ کرنے اورتھانے میں درج سنگین مقدمات کے بارے میں۔ نتھو نے بتایا۔ اس کے آٹھ بیٹے تھے۔دوکوقتل کردیاگییا۔۔باقی چھ میں سے دوپولیس مقابلوں میں معذورہوچکے ہیں۔باقی تین آپ کے سامنے آگئے ۔ایک جیل میں بند ہے۔۔تھانے میں درج تمام مقدمات میں ۔۔۔ گینگ کاسربراہ میں ہوںاورمیرے آٹھوں بیٹے اس گینگ کے رکن ہیں اورکوئی نہیں ۔ ۔ پرچے سیاسی بنیادپربنائے گئے۔۔علاقے کابڑاہونے کے ناتے فیصلے کراتاہوں۔چوری کامال واپس کرواناہویاعلاقائی تنازع ،معاملات ہم ہی نمٹاتے ہیں۔ بعض لوگوں کو ہمارابڑا بننا منظور نہیں۔۔نتھو سے بات کرنے کے بعدمخبر ہمیں واپس تھانے لایا۔ایس ایچ اونے مقدمات کی تفصیلات بتائیں۔۔ایف آئی آرز کا ذکرکیا۔ ہم نے ریکارڈنگ کی اورواپس آگئے۔۔
جرائم کی داستانوں پرمبنی پروگرام دوروزبعدنشرہوناتھا۔ ایک روزپہلے نتھو کا فون آگیا۔بولا۔۔پولیس کے ساتھ آئے تھے ، کبھی اکیلے آؤ ناں۔۔سب کچھ بتاؤں گا، بہت سی داستانیں ہیں۔۔ہمیں اور ہمارے خاندان کونشانہ بنایاجارہاہے۔ پولیس خود ہمیں گینگ بناکرپیش کررہی ہے۔۔میں نے وعدہ کرلیا۔ ایک ہفتے بعدانٹرویوطے ہوگیا۔اگلے دن پروگرام آن ائیرہوا۔نتھوگینگ پرپیکیج بھی خوب چلا۔۔میں نے سوچامحنت وصول ہوگئی مگر تیسرے ہی دن نتھو کے بیٹے نے فون کرکے بتایا۔۔ اس کے باپ کوپولیس مقابلے میں ماردیاگیاہے۔۔فون بند ہوگیا۔۔ایس ایچ اوکوفون گھمایا۔ فون نہیں اٹھایا ۔علاقے کے ایس پی کوفون کیا۔ اس نے بتایا اشتہاری تھازندہ یا مردہ گرفتاری پر انعام مقرر تھا، پولیس کے گھیراؤ پر مقابلے میں ہلاک ہوگیا۔۔قصہ ختم۔ میرے دماغ میں آندھیاں چلنے لگیں۔غورکیاتوسب کچھ پولیس کا پلان ہی نظرآیا۔۔۔اخبارات میں تواترکے ساتھ خبروں کی اشاعت ۔۔۔۔ نتھو گینگ کومشہورکرنااورپھرقصہ ختم کرنا۔۔۔نتھوبلاشبہ مجرم ہوگالیکن اس کاقصہ ختم کرنے کااندازبہت سے سوالات چھوڑگیا۔۔سوچنے لگا۔میڈیاکوکس طرح کٹھ پتلی بنایاگیا۔ہمیں بھی استعمال کیاگیا۔۔۔۔؟
نوٹ۔۔۔واقعہ ان دنوں کاہے جب مجھے ٹی وی چینل کاریجنل ہیڈبناکرکراچی سے ملتان بھیجا گیا تھا۔۔ ان تین برسوں کی اوربھی کئی یادیں ہیں۔موقع ملا توشیئرکروں گا۔۔یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں جس ادارے کیلئے کام کررہاتھا۔وہاںنہ صرف مالکان بلکہ ہمارے اپنے ساتھی بھی سمجھتے تھے کہ شایدپروگرام چٹکی بجاتے ہی ریکارڈہوجاتاہے۔۔۔(قمرزمان )۔۔