تحریر: ڈاکٹر مجاہد منصوری۔۔
ملکی میڈیا میں بری طرح نظر انداز، پاکستانی سوشل سیکٹر میں میر صاحب کی دلچسپی، جنگ کے ایک ریگولر ایجنڈے میں تبدیل ہو کر قومی مین اسٹریم میڈیا کو بھی بہت مثبت انداز میں متاثر کرنے کا باعث بنی اور یہ ایجنڈا سیٹنگ (سوشل سیکٹر) روزنامہ جنگ کے اسپیشل رپورٹنگ سیٹ اپ کی مکمل پروفیشنل شکل میں، ناصرف پورے پرنٹ بلکہ ظہور پذیر الیکٹرونک میڈیا میں بھی تقلید کا باعث بنی۔
یوں پاکستانی صحافت (پرنٹ اور الیکٹرونک دونوں) میں پاور فل سیکشنز آف سوسائٹی کے حاوی اور غالب ایریاز (عملی سیاست، کرائمز، بزنس، شو بزنس، اسپورٹس و تفریح عامہ وغیرہ) کے مقابل سوشل سیکٹر بھی بالآخر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔
اس سے قبل سوشل سیکٹر کی رپورٹنگ اِن حاوی شعبوں کے مقابل بہت محدود تھی اور وہ بھی اِن شعبوں کی محکمانہ سرگرمیوں یا واقعات کے حوالے سے سطحی انداز ، بس اک اتمامِ حجت ہوتا، حالانکہ سبھی میڈیا اسکالرز انسانی تہذیب کے صحافت جیسے جدید ترین پیشے کو مرر آف سوسائٹی (آئینۂ معاشرہ) کے طور پر تسلیم کرتے اور اس رائے کے حامی ہیں کہ اسے (میڈیا کو) سماج کا عکاس ہی ہونا چاہئے۔
اس موضوع پر میرے شکیل صاحب سے طویل مکالمے وقتاً فوقتاً ہوتے رہے اور ہنوز جاری ہیں، میں انہیں اِس پر قائل کرتا رہا کہ پاکستان ہی نہیں، پوری دنیا میں یعنی انٹرنیشنل میڈیا میں بھی، صحافت کے فروغ اور جدت کے ساتھ ساتھ اس کے سماج کا آئینہ ہونے کا تشخص کم تر ہوتا جا رہا ہےلیکن یہ بھی جنگ گروپ ہی ہے جس نے پاکستان میں میڈیا کے تیز تر فروغ اور اسے جدتوں سے نوازتے ہوئے۔
نا صرف اپنے ایجنڈے میں قومی اور عوامی ضرورتوں کے لئے بڑی جگہ بنائی، جس کا کچھ ذکر تو جاری سلسلے کی ابتدائی اقساط میں بھی ہو چکا۔ اس کی ایک بڑی شعوری، منظم اور منصوبہ بندی کے ساتھ کوشش جنگ لاہور میں ’’ڈویلپمنٹ رپورٹنگ سیل‘‘ کا قیام تھا جو میری زیر ادارت قائم ہوا جس کی تقلید بکھری بکھری تو ضرور ہوتی رہی اور ہو رہی ہے، لیکن اِس ماڈل کو اس کی روح کے مطابق، بوجوہ کوئی بھی دوسری میڈیا آرگنائزیشن اختیار نہ کر سکی۔
ناچیز کی تدریسی اور عملی صحافت کا دورانیہ نصف صدی پر محیط ہے، اس میں 32سال یونیورسٹی سطح پر تدریس اور ساتھ ساتھ 30سالہ میڈیا مشاورت، کالم نویسی ، فیچر رائٹنگ، انٹرویوز، ڈویلپمنٹ رپورٹنگ اور میڈیا پلاننگ کی عملی خدمات جنگ گروپ کو دیں اور فل برائٹ اسکالر کے طور امریکی اخبار ڈیلس مارننگ نیوز کے علاوہ مختلف اوقات میں وائس آف جرمنی، آسٹریلوی براڈ کاسٹنگ سروس ایس بی ایس اور ایجنسی فرانس پریس سے بطور اسٹرنگر وابستگی کے وسیع تجربے نے مجھے میر شکیل الرحمٰن کے بھرپور تعاون سے جنگ گروپ کے امور سے سیکھنے اور (گروپ کو) اپنے تجربے، آرااور آئیڈیاز سے پیشہ ورانہ خدمات فراہم کرنے کا بھرپور موقع ملا۔
میری شکیل صاحب سے طویل نشستیں پیشہ ورانہ اور صحافت کے جدید رجحانات، ان سے اتفاق و اختلاف اور میڈیا ہی پر مکالمے پر ہوتی رہیں۔ اپنے اس تجربے کے باعث جنگ گروپ میں حاصل مواقع کے پیشِ نظر میں ’’میر شکیل الرحمٰن ‘‘ کو ملک کے سب سے بڑے ’’میڈیا لارڈ‘‘ کے طور پر ہی نہیں بلکہ ان اوپن سیکرٹس سے بخوبی واقف ہوں اور میر صاحب کی غیرقانونی اور بدنیتی پر مبنی اسیری میں سچے دل سے گواہی اپنی پیشہ ورانہ اور اخلاقی فریضہ سمجھتا ہوں کہ میر صاحب ملک کے میڈیا سیٹھ کے علاوہ اپنے ہی گروپ کے ذرائع ابلاغ عامہ کے نہیں بلکہ ملک کے سب سے بڑے ’’میڈیا ایجنڈا سیٹر‘‘ ہیں اور اس میں ان کی سوچ اپنے میڈیا انڈسٹریل گروپ کو چلانا اور بڑھانا تو بنیادی تقاضا ہوتا ہی ہے لیکن وہ ملکی و قومی ضروریات، ترجیحات اور سب سے بڑھ کر اپنے چینلز اور پبلیکیشنز کو معاشرے کا حقیقی عکاس یعنی ’’مرر آف سوسائٹی‘‘ بنانے پر ہی یقین نہیں رکھتے بلکہ اس پر انہوں نے عملاً بہت کچھ کر کے دکھایا ہے۔
اور وہ کچھ جو دوسرے مقابل یا معاصر ابلاغی اداروں کیلئے قابل تقلید بنا، تبھی تو میں اس رائے میں حق بجانب ہوں کہ وہی اس ملک کے سب سے بڑے ایجنڈا سیٹر‘‘ ثابت ہوئے۔ اور یہ ثابت ناچیز کی رائے سے ہی نہیں، اسے میڈیا ریسرچ کے تمام تر رائج جدید طریق اختیار کر کے ثابت کیا جا سکتا ہے۔
یہ بحث ہو سکتی ہے کہ میر شکیل الرحمٰن نے جنگ/ جیو گروپ کی جو ایجنڈا سیٹنگ خود یا اپنے معاون مشیروں اور صحافی ساتھیوں کے اشتراک سے کی، وہ کتنے قابلِ بحث ہیں، لیکن اِن پر بحث اور اعتراض تو بہت کم اور تقلید ہی زیادہ ہوئی۔ اب میر صاحب کو پابندِ سلاسل کر کے جو کچھ تبریٰ کیا جا رہا ہے۔
وہ گھٹیا درجے کی کاروباری رقابت اور حسد ہے لیکن پاکستان کی میڈیا تاریخ کی یہ حقیقت اپنی جگہ ہے (اور اسے چیلنج پر ریسرچ سے ثابت کیا جا سکتا ہے، بیشتر تو پہلے ہی تسلیم شدہ ہے) کہ میر شکیل الرحمٰن واحد میڈیا اونر ہیں جو بڑے ایجنڈا سیٹر بھی ہیں اور وہ ایجنڈا جو وسیع البنیاد اور قومی ضروریات اور عوامی حاجات، رجحانات و میلانات کا عکاس بھی ہے۔(بشکریہ جنگ)۔۔