تحریر : سلیم صافی
میڈیا عالمی سطح پربھی بعض المیوں سے دوچار ہے ۔ مثلاً مثبت عمل یا ضابطے اور معمول کے مطابق ہونے والے عمل کہیں خبر نہیں بنتے ۔ یوں عالمی سطح پر میڈیا اس تنقید کی زد میں ہے کہ وہ مایوسی اور انتشار پھیلانے کا موجب بنتا ہے۔ اسی طرح عالمی سطح پرحکومتوں سے لے کر مختلف لابیوں تک ہر کوئی میڈیا کو اپنے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کرتاہے جبکہ صنعت بن جانے کی وجہ سے امریکہ سے لے کر روس تک اور یورپ سے لے چین تک میڈیا کہیں نہ کہیں ، کسی نہ کسی شکل میں، کسی نہ کسی ایجنڈے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ اسی طرح عالمی سطح پر خفیہ ایجنسیاں میڈیا پرسنز سے جاسوسی کا کام لینے کے لئے سرگرم عمل رہتی ہیں جس کی وجہ سے اس کی ساکھ اورغیرجانبداری بڑی مثاثر ہوئی ہے اور اب بڑی مشکل سے کسی میڈیا آرگنائزیشن یا میڈیا پرسن کو غیرجانبدار سمجھا جاتا ہے ۔
مذکورہ عوارض تو پاکستانی میڈیا کو لاحق ہیں ہی لیکن پاکستانی میڈیا کچھ مخصوص المیوں سے بھی دوچار ہے ۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں میڈیا بحیثیت مجموعی صحافیوں کے ہاتھ میں نہیں ۔ میڈیا یوں تو پوری دنیا میں صنعت بن گیا ہے لیکن اس کے باوجو د ترقی یافتہ ممالک میں میڈیا کی مہار صحافیوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔جبکہ یہاں بہت سارے لوگ اپنے کالے دھندوں یا کاروبار کے تحفظ کے لئے میڈیا کے میدان میں آگئے ۔ وہ صرف مالک نہیں بلکہ ایڈیٹر کی کرسی پر خود بیٹھ گئے ہیں جس کی وجہ سے وہ ادارت کا کام بھی سیٹھ کے اسٹائل میں کررہے ہیں ۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ یہاں خبر اور تجزیے کی تمیز ختم ہوگئی ہے ۔ اخبار کے صفحہ اول پر تجزیے خبر کی شکل میں شائع ہوتے ہیں جبکہ کالموں اور تجزیے کے پروگراموں میں خبریں بریک کی جاتی ہیں ۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ یہاں نیوز اور انٹرٹینمنٹ کو خلط ملط کردیا گیا ہے ۔ نیوز چینل پر انٹرٹینمنٹ کے پروگرام دیکھنے کو ملتے ہیں جبکہ شوبز کے لوگ نیوز شوز کے میزبان بنے ہوتے ہیں ۔ اور تو اور یہاں مذہب، حالات حاضرہ اور انٹرٹینمنٹ کو بھی آپس میں گڈمڈ کردیا گیا ہے ۔ ایک ہی بندہ ایک ہی چینل پر ایک وقت میں شوبز کے شو کا میزبان ہوتا ہے ، دوسرے وقت میں مذہبی پروگرام کا ، تیسرے وقت میں حالات حاضرہ کے پروگرام کا اور چوتھے وقت میں وہ بطور تجزیہ نگار اپنے خیالات عالیہ سے قوم کی رہنمائی کررہا ہوتا ہے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مذہبی پروگرام ، مذہبی نہیں رہے ۔ نیوز کے شوز حالات حاضرہ کے شوز نہیں رہے جبکہ انٹرٹینمنٹ ، انٹرٹینمنٹ نہ رہی ۔ بسا اوقات نیوز چینلز پر اسپورٹس چینلز کا اور مذہبی چینلز پر انٹرٹینمنٹ کے چینل کا گمان ہوتا ہے۔ پاکستانی میڈیا کاتیسرا المیہ یہ ہے کہ یہ بہت بری طرح تقسیم ہوگیا ہے ۔ دنیا میں صحافی ایشوز کی بنیاد پر کیمپ اپناتے یا بدلتے اور ایشوز ہی کی بنیاد پر حمایت یا مخالفت کرتے ہیں لیکن پاکستانی میڈیا سیاسی جماعتوں اور اداروں کے مابین تقسیم ہوگیاہے ۔ کچھ میڈیا آرگنائزیشنز اور صحافی ایک جماعت کے تو کچھ دوسری جماعت کے حامی ہیں ۔ اسی طرح کچھ ایک ادارے کے تو کچھ دوسرے کے مخالف ہیں ۔ پھر یہ ریت چل پڑی ہے کہ جو جس جماعت یا ادارے کا حامی ہے ، تو وہ اس کی ہر برائی پر پردہ ڈالے گا یا اس کی توجیح پیش کرے گا اور مخالف ادارے کی ہر اچھائی کو برائی ثابت کرنے کی کوشش کرے گا۔ اب تو یہ تقسیم نظریاتی بھی نہیں بلکہ خالص مفاداتی بن گئی ہے اور بدقسمتی سے اس عمل کو سیاسی رہنمائوں اور ریاستی اداروں نے بھی یوں تقویت بخش دی ہے کہ انہوں نے بھی میڈیا ہائوسز اور صحافیوں میں اپنے حامی اور مخالف ڈکلیئر کردئیے ہیں ۔ دنیا بھر میں صحافت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن دونوں پیشے الگ الگ رہتے ہیں جبکہ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں سیاست اور صحافت بھی خلط ملط ہوتی جارہی ہے ۔ یہاں بہت سارے لوگوں نے صحافت کو سیاست یا پھر حکومت میں جگہ بنانے کے لئے سیڑھی کے طور پر استعمال کیا جبکہ خود سیاستدانوں نے بھی صحافیوں کوعہدے دے کر اس گھنائونے عمل کو فروغ دیا۔ چنانچہ سیاست اور صحافت کے خلط ملط ہونے کی وجہ سے سیاست بھی بدنام ہورہی ہے اور صحافت بھی بے وقعت ہورہی ہے ۔ اسی طرح دنیا کے ہر ملک کے ٹاک شوز میں سیاستدانوں کو صرف اس صورت میں بلایا جاتا ہے کہ جب ان کا محاسبہ مقصود ہو۔ دنیا کے کسی ملک میں سیاستدانوں کو تجزیہ کار کے طور پر نہیں بلایا جاتا ۔ معیشت پر بات ہو تو معیشت کے ماہرین کو بلایا جاتا ہے ، خارجہ امور پر بات ہو تو اس کے ماہرین سے رجوع کیا جاتا ہے اور دفاعی امور زیربحث ہوں تو اس شعبے کے ماہرین کی رائے لی جاتی ہے ۔ یہ صرف پاکستانی میڈیا ہے کہ جہاں ہر ایشو پر سیاستدانوں اور وہ بھی اکثربدتمیز اور لڑنے جھگڑنے والے سیاستدانوں کو بلایا جاتا ہے ۔ ایشو معیشت کا ہو، مذہب کا ، سیکورٹی کا یا خارجہ پالیسی کا وہی چند زبان دراز لڑتے جھگڑتے نظر آتے ہیں ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی بھی ایشو پر قوم ایجوکیٹ تو نہیں ہوتی، البتہ کنفیوژ اور جذباتی ضرورہوجاتی ہے ۔اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ سیاستدان خود اینکرز اور تجزیہ کار بن کر ٹی وی چینلز کے باقاعدہ ملازمین بن گئے ہیں ۔ وہ ایک ٹی وی چینل پر پارٹی ترجمان اور دوسرے چینل پر تنخواہ دار میزبان بنے ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے یہ سیاستدان کی بھی بے عزتی ہے اور شاید اینکرز اور تجزیہ کاروں کی بھی۔ اسی دنیا میں ہر جگہ میڈیا ہائوسز اور میڈیا پرسنز اپنی ویورشپ اور ریڈر شپ بڑھانے کے لئے سرگرداں رہتے ہیں لیکن اس کے لئے صحافتی اخلاقیات کو پامال نہیں کیا جاتا ۔ یہ پاکستانی میڈیا کا المیہ ہے کہ وہ ہمارے سیاستدانوں کی طرح مکمل طور پر پاپولرازم کا شکار ہے ۔ اسے کبھی یہ فکر لاحق نہیں ہوتی کہ قوم کو کیا دکھانا چاہئے بلکہ اسے یہی فکر لاحق رہتی ہے کہ قوم کیا دیکھنا چاہتی ہے اور ماشاء اللہ مقتدر قوتوں اور سیاستدانوں کے ساتھ مل کر میڈیا نے قوم کا ذوق اتنا خراب کردیا ہے کہ اب وہ سنجیدہ بات سننا چاہتی ہے ، سنجیدہ انسان دیکھنا چاہتی ہے اور نہ سنجیدہ ایشو میں دلچسپی لیتی ہے ۔ اس قوم کے اخلاقی زوال اور ذوق کی خرابی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ اب وہ انور مقصود اور خالد مسعود کی بجائے شاہد مسعود دیکھنا اور سننا چاہتی ہے۔اسی طرح دنیا کے ہر ملک میں میڈیا پر قدغنیں بھی رہتی ہیں اور وہ آزاد بھی ہوتا ہے لیکن آزادی کی بھی حدود ہوتی ہیں اور قدغنوں کی بھی ۔ پاکستانی میڈیا کا المیہ یہ ہے کہ بعض حوالوں سے یہ حد سے زیادہ آزاد ہے اور بعض حوالوں سے حد سے زیادہ غلام ۔ مثلاً عام شہریوں اور سیاستدانوں کی پگڑیاں اچھالنے کے معاملے میں اسے جو آزادی حاصل ہے اس کا دنیا کے کسی بھی ملک میں تصور نہیں کیا جاسکتا لیکن بعض اداروں اور شخصیات سے متعلق وہ جس طرح غلام ہے ،اس کا تصور شمالی کوریا اور عرب ممالک میں بھی نہیں کیاجاسکتا۔ جتنے صحافی پاکستان میں مارے گئے یا بے عزت کئے گئے ، اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی ۔ اب یہ غلام ہوکر بھی آزاد ہے اور آزاد ہوکر بھی غلام ہے اور شاید یہی سب سے بڑا المیہ ہے۔
یوں تو پاکستانی میڈیا میںہر طرف المیے ہی المیے ہیں لیکن ایک بڑا المیہ ہم اینکرپرسنز ہیں ۔ہماری صفوں میں بعض امیرزادے بھی ہوں گے لیکن بحیثیت مجموعی اینکر غریب اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ٹیکنالوجی کا کمال تھا یا پھر جنرل پرویز مشرف کی مہربانی تھی کہ پرائیویٹ ٹی وی چینلز آگئے اور اس میں مجھ جیسے کم تعلیم یافتہ اور غریب لوگوں کو بھی اینکرکی جگہ مل گئی ۔ مجھ جیسے لوگ جو پندرہ بیس ہزار روپے ماہانہ تنخوا ہ لیتے تھے، کو لاکھوں میں تنخواہ ملنے لگی ۔ اوپر سے شہرت آگئی ۔ عزت آگئی اور کسی حد تک ٹوربھی بن گئی۔ اب یک دم ان سب نعمتوں کو برداشت کرنا ہم اینکرز کے لئے بڑا چیلنج بن گیا۔ اینکرز میں بھی جو لوگ ایک تسلسل اور محنت کے نتیجے میں یہاں تک پہنچے تھے، کسی حد تک قابو میں رہے لیکن جو چھتری سے اترے تھے یا جن کو اتفاقی طور پر یہ مقام ملا تھا وہ آپے سے کچھ زیادہ باہر ہوگئے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے ہم مشہور (Famous) تھے تو اب بدنام (Notorious) ہوگئے ۔ پہلے لوگ دل سے ہماری عزت کرتے تھے لیکن اب وہ ہمارے شر سے بچنے کے لئے بادل ناخواستہ ہم سے میل جول رکھتے ہیں ۔
ہمارے ایک سینئر اینکر کی حرکت اور اس پر ہونے والا ردعمل ہم اہل صحافت کے لئے قدرت کی طرف سے ایک تنبیہ ہے ۔ اس سے سبق لے کر اگر ہم میڈیا والوں نے خود اپنا احتساب نہ کیا ، اپنے لئے حدود و قیود متعین نہ کیں اور اپنی صفوں سے کالی بھیڑوں کو نہ نکالا تو وہ وقت دور نہیں جب میڈیا پرسنز کو دیکھتے ہی لعنت لعنت کے نعرے بلند ہوں گے۔(بشکریہ جنگ)