geo news se meera istefa

میڈیا کے سرخے۔۔۔

تحریر: انصار عباسی

ایکسٹینشن کے مسئلے پر تو مجھے کہہ دیا گیا ہے کہ میں کچھ نہیں لکھ سکتا۔ گزشتہ روز برطانیہ کی طرف سے پاکستان کو چالیس ارب روپے واپس کرنے کی خبر پر بھی لکھنے کا نہیں سوچ سکتا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ کالم ہی رُک جائے گا۔ اب پھر لکھیں تو لکھیں کیا!!!

پہلے سوچا کہ چھوڑو! کالم لکھتا ہی نہیں لیکن پھر خیال آیا کیوں نہ لال لال اور سرخ سرخ والوں کے حق میں چلائی جانے والی میڈیا مہم پر ہی کچھ لکھ دیا جائے تاکہ کم از کم دوسری طرف کی بھی رائے قارئین کے سامنے آجائے۔

لال لال اور سرفروشی کی تمنا کرنے والوں کی ایک وڈیو سوشل میڈیا پہ چلی تو ماضی کے سرخوں کی تو جیسے جان میں جان آ گئی ہو۔ میڈیا میں بیٹھے ماضی کے سرخوں‘ جو ناامیدی میں ڈوبے اس حالت کو پہنچ چکے تھے کہ کبھی نواز شریف اور کبھی مولانا فضل الرحمٰن تک کو سپورٹ کرتے پائے گئے، کو تو جیسے نئی زندگی مل گئی ہو۔لال لال اور سرفروشی کی تمنا کرنے والوں کو فوری ہیرو کا درجہ دیا اور بڑی چالاکی سے ان لال لال والوں کی پروموشن کرتے ہوئے بات طلبہ یونین کی بحالی کی کرتے رہے۔ نہیں معلوم لال لال اور سرفروشی کی تمنا کرنے والے دس بارہ نوجوان خود کیا چاہتے تھے لیکن میڈیا میں بیٹھے ہمارے ماضی کے سرخے تو جیسے اُنہیں استعمال کر کے اپنی اُس خواہش کو پورا کرنا چاہ رہے ہیں کہ کسی طرح پاکستان اور اس کے اسلامی آئین سے اسلام کے گہرے تعلق اور نظریے کو بدلنے کا ماحول پیدا کیا جا سکے۔

کچھ تو پیچھے بیٹھ کر لال لال کی میڈیا مہم کو کامیاب کرنے کی تدبیریں کرتے رہے اور پروگرام چلواتے رہے تو کچھ سامنے آ کر اس لال لال ’’تحریک‘‘ کا حصہ بن گئے۔ ایک ہمارے دوست تو لال لال کے مظاہرے میں پہنچ گئے اور کہنے لگے کہ دہائیوں پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔بہرحال ہمارے میڈیائی سرخوں نے مختلف ٹی وی چینلز پر اپنے نئے ہیروز کے انٹرویو ایسے چلانا شروع کر دیے جیسے سارا ملک ہی لال لال ہونے کے لیے بیتاب ہوا بیٹھا ہے۔ لال لال اور سرفروشی کی تمنا کرنے والوں کو اتنی اہمیت دی کہ ملک کے بڑے شہروں میں لال لال والوں نے مظاہرے کر ڈالے۔

ان مظاہروں کی تصویریں، جن میں سے ایک میں تین خواتین ایک مرد کے گلے میں پٹّا باندھ کر اُسے جانوروں کی طرح اپنے آگے آگے چلا رہی تھیں، سامنے آئیں تو سوشل میڈیا پہ فوری وائرل ہو گئیں لیکن ٹی وی چینلز میں بیٹھے سرخوں نے ان تصویروں کو اپنے ناظرین تک نہیں پہنچایا کہ کہیں لال لال کی مہم الٹی ہی نہ پڑ جائے۔ ان مظاہروں کا عکس جو سوشل میڈیا پر دیکھا تو ایسے لگا جیسے یہ عورتوں کے آزادی مارچ اور ’میرا جسم میری مرضی‘ والے مظاہروں کا ہی تسلسل ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ یہ طلبہ کو سوال کرنے کا حق دینے کی تحریک ہے۔ سوال جتنے جی میں آئیں، ضرور کریں، طلبہ کو کس نے روکا ہے؟ لیکن اگر کسی کی یہ خواہش ہے کہ طلبہ کو استعمال کرکے آزادیٔ رائے کا وہ معیار یہاں مقرر کریں جو مغرب میں رائج ہے اور جس کی وجہ سے اسلام کو آئے دن نشانہ بنایا جاتا ہے تو ایسا ایک اسلامی ریاست میں نہیں ہو سکتا۔

سوچ تو یہ بھی ہے کہ پاکستان کے آئین میں ترامیم کرکے اس کو اسلام سے جدا کر دیا جائے تاکہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنایا جا سکے۔ لال لال والے کوشش کر لیں، اس بارے میں عوام سے ووٹ بھی مانگیں لیکن میری میڈیائی سرخوں سے درخواست ہے کہ کم از کم لال لال والوں کے علاوہ دوسری طلبہ تنظیموں اور گروپوں کو بھی برابری کی بنیاد پر کوریج دیں۔لاہور میں جب لال لال والے اپنا مظاہرہ کر رہے تھے تو اُسے تو میڈیا پہ دکھایا گیا لیکن اسی شہر لاہور میں طلبہ کی طرف سے ناروے میں اسلام دشمن عمل کے خلاف مظاہرہ کیا گیا لیکن اُسے میڈیا میں کوئی کوریج نہیں ملی۔ یہ تو صحافت کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ایک بات البتہ طے ہے کہ میڈیا میں بیٹھے سرخے جو مرضی کر لیں، پاکستان کو ان شاء اللّٰہ اسلام سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔(بشکریہ جنگ)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں