تحریر: وقار مصطفی
پچھلے کچھ عرصہ سے میری لغت پر گرد نہیں جم رہی۔ ایسا نہیں کہ علم حاصل کرنے کا ایسا لپکا ہے کہ کوئی دن نہیں جاتا کہ لغت سے گرد جھاڑ کر مشکل الفاظ کے معانی تلاش نہ کروں، بلکہ اس صفائی کا باعث تو ان الفاظ پر ہر روز، بلکہ بعض اوقات ہر پہر، شک گزرنا ہے جو سکول کی ابتدائی جماعتوں میں سیکھے تھے۔
اخبار دیکھوں، ریڈیو سنوں یا ٹیلی وژن سے افادہ ہو، خود پہ شک وتیرہ بنتا جارہا ہے۔ بنتا تو وطیرہ اگر میں ذرائع ابلاغ ہی پر یقین کرتا اور لغت سے گرد صاف کرکے یہ نہ جان لیتا ہے کہ وتیرہ تو وہ کام ہے جو بار بار کیا جائے یعنی عادت بن جائے۔ تواتر اسی خاندان سے ہے۔
گئے وقتوں میں کاتب پر الزام دھرا جاتا تھا ایسی غلطیوں کا۔ وہی کاتب جو شبلی عفی عنہ کو ستلی چند عدد لکھ کر شبلی نعمانی کی شرمندگی کا باعث بنا۔ یا وہ کہ جس کی شہ سرخی نے ایوب خان کے مارشل لا میں وزرا کو نامزد کی بجائے نامرد کر دیا۔نہ جانے پانچویں یا چھٹی جماعت میں پڑھا تھا آوازے کسنا یعنی طعنہ زنی یا چھیڑ چھاڑ کرنا۔ کب یہ ترکیب آوازیں کسنا بن کر اخبار میں رواج پائی، نہیں معلوم۔ کیوں نہ اب کمپوز کرنے والے کومطعون ٹھیرالیں؟ (مان لیتا ہوں یہ لفظ ٹھہرتے لکھنا چاہیے کیوں کہ یہی املا رائج ہے۔ گو کہ بعض شعرا نے حرف ھ کے بعد ہ کا اضافہ کیا ہے، صحیح املا حرف ھ کے بعد حرف ی ہی ہے)۔ مگر یہ کیا بدعنوانی ہے کہ رشوت لینے والا (مرتشی) بہت دنوں سے راشی (رشوت دینے والا) لکھا جاتا ہے۔ تو ہم سوار کے سواری، تقرر کے تقرری، تابع کے تابع دار، ناراضی کے ناراضگی، درستی کے درستگی، دارالحکومت کے دارالخلافہ اور شکرگزار کے مشکور بننے کا شکوہ کس سے کریں؟
یہ شکایت بھی کس سے ہو کہ ہم زبر کے استعمال میں زبردست ہیں۔ برص، وقت، عرض، لفظ میں دوسرے حرف پرتو زبر جڑ دیتے ہیں مگر برس، غلط، غرض، مرض کے دوسرے حرف پر لازم زبر کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے۔ خواب کے و کو تو آواز مل جاتی ہے، خواتین کے و کو خاموش کر دیا جاتا ہے۔ موقف میں ق کے نیچے زیر ہے مگر ہمارے دوست م پر پیش، و پر زبر اور ق پرشد اور زبر سے اس لفظ کو کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں۔ توجہ میں ج پر زبر ڈال دی جاتی ہے، خودکش میں ک پر۔ نہ جانے مفہوم کیسے ادا ہوتا ہے؟ اور کچھ نہیں خودکش کو زیر ہی کر لیتے، بہت سوں کا بھلا ہو جاتا!
خبریں ہوں یا ٹاک شوز ہیجان کا حوالہ ہیں۔ پہلے پہل آواز کا ایک خاص حد سے بلند ہونا بدتہذیبی کہلاتا تھا، آج کل خوبی قرار پاتا ہے، تنخواہ اور دکان بڑھنے کا باعث ہے۔ سننے اور دیکھنے والے اختلاج قلب کا شکار ہوں تو ہوں۔ تجزیہ میں تجزیہ کم، طعنے اور کوسنے زیادہ ہوتے ہیں۔ کئی دفعہ تو تجزیہ کاروں (سب ہی سینیئر تجزیہ کار ہوتے ہیں) کو ہاتھ اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دیتے بھی سنا اور دیکھا گیا ہے۔ ہدف عموماً ناپسندیدہ سیاست دان اورساتھی تجزیہ کارہوتے ہیں۔ سنا کرتے تھے کہ ذرائع ابلاغ کی زبان ایسی ہو کہ جو کہا جائے کم ازکم علمی معیار رکھنے والوں کی سمجھ میں آجائے لیکن اب اردو اورعلاقائی زبانوں کے پروگرام ہوتے ہیں مگر انگریزی زبان کا بے دریغ، بے محابہ اور اکثراوقات غلط استعمال ہوتا ہے۔ اداکارہ میرا کی انگریزی تو خبروں کا موضوع بنتی ہے، اپنی اردو کی غلطیوں پر بھی کہتے ہیں، بات سمجھ میں آگئی ہے نا، تو بس پھر ٹھیک ہے!
پہلی بارریڈیو پروگرام کی میزبانی کرنے سے پہلے ایک استاد نے کہا تھا کہ مائیک کو شمع سمجھو، بولو تو اس کی لو نہ ہلنے پائے۔ اس بات میں سانس کی مشق کی ہدایت تھی، مائیک کے تقدس کا اشارہ تھا۔ اب سانس کی دھونکنی چل رہی ہوتی ہے، لفظ بے مہار ہوتے ہیں، گالم گلوچ کی حدوں کو چھوتی گفتگو ہوتی ہے، جھوٹ سچ کی سند پاتا ہے، تقدس پامال ہوتا ہے۔گویا شمع کی لو صرف ہلتی ہی نہیں، بجھ بھی جاتی ہے۔ مگر راوی ان کے لیے تو چین ہی چین لکھتا ہے مگر میرے لیے نہیں۔ میرے چین کی کوئی دوا کرے گا کیا؟(بشکریہ انڈی پینڈنڈنٹ)۔۔