تحریر: سید بدرسعید
کل میڈیا کے حوالے سے ایک عجیب انکشاف ہوا ۔ کم از کم مجھ ایسے بندے کے لیے یہ انکشاف ہی تھا ۔ ایک چھوٹے چینل میں کام کرنے والے ساتھی سے بعض مسائل پر گفتگو ہو رہی تھی ۔ میں نے کہا آپ کے چینل میں ہر دوسرے بندے کو لائیو بیپر پر لے آتے ہیں ، عام سی خبروں کو بھی پھٹے والی بریکنگ نیوز بنا دیتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جن رپورٹرز یا نمائندوں نے ایک بھی پروگرام نہیں کیا ان کا بیپر بھی اینکر یا سینئر تجزیہ کار کے عہدے کے ساتھ چلایا جاتا ہے حالانکہ رپورٹنگ بذات خود انتہائی اہم شعبہ ہے ۔ دوست نے جلے ہوئے انداز میں کہا : کیا ضروری ہے یہ سب سکرین پر بھی چلا ہو ؟ میں چونک گیا اور کہا کیا مطلب ؟؟؟ وہ کہنے لگا : ہمارے چینل میں آپ کی آئی ٹی والوں سے اچھی دوستی ہونا ضروری ہے ۔ انہیں کچھ کھلاتے پلاتے رہیں تو موبائل پر ریکارڈنگ کر کے بھی بھیج دیں تو وہ اسے پھٹے والی بریکنگ نیوز بنا کر آپ کو واٹس ایپ کر دیتے ہیں ۔ آپ شوق سے ایسی ویڈیو ، ڈاءریکٹ تیار شدہ سکرین شاٹ سوشل میڈیا پر آپ لوڈ کرتے رہیں ، کون دیکھتا ہے کہ اتنے چھوٹے چینل کی سکرین پر بھی یہ اسی طرح چلا ہے یا نہیں ؟؟؟ اس چینل کے رازدان کا جواب سن کر مجھے پہلے حیرت ہوئی پھر خیال آیا کہ اب شاید چینلز کی بھرمار میں شہرت یا نام کمانے کا اصل ذریعہ اصل میڈیا نہیں رہا بلکہ ڈس انفارمیشن کے سیلاب میں جو سوشل میڈیا پر ظاہر کیا جائے وہی سچ بن جاتا ہے ۔ ایک اور لڑکا یاد آیا جس کا کالم کوئی اخبار نہیں چھاپتا تھا ، اس نے ہلکی پھلکی ڈیزائینگ سیکھی اور اپنی تحریر کالم کے لے آؤٹ میں ڈیزائن کر کے اپ لوڈ کرنی شروع کر دی ، کچھ عرصہ کیں کالم نگاروں کی کمیونٹی میں اسے جانا جانے لگا ۔ دیگر لوگ بھی اسے کالم نگار سمجھنے لگے ۔ ایک دو تقریبات میں بھی بلایا جانے لگا لیکن اب چند سال سے میڈیا انڈسٹری میں کسی کو شاید وہ یاد بھی نہیں رہا اور نہ کہیں نظر آتا ہے ۔ جھوٹ اور فریب کی دنیا بہرحال اتنی ہی عمر رکھتی ہے (سید بدر سعید )