تحریر: خرم شہزاد
پاکستانی سیاست اور میڈیا میں ہمیشہ سے ایک عجب سا تال میل رہا ہے جسے کوئی خاص نام نہیں دیا جا سکتا لیکن اس کی موجودگی اور حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں ہوتا۔ پچھلے دنوں ایک چھوٹی سی پوسٹ کسی نے بھیجی اور کیا ہی خوب پوسٹ تھی کہ ابھی تک اس کے سرور میں ہوں۔ پاکستانی سیاست اور میڈیا کے تعلق کو شائد ہی اس سے بہتر انداز میں کسی مثال سے واضح کیا جا سکے گا۔ آپ بھی پڑھتے ہوئے لطف اندوز ہوں کہ باقی باتیں اس کے بعد کرتے ہیں۔
ریڈ انڈینز کے اپاچی قبیلے کا بزرگ سردار انتقال کر گیا تو جدید یونیورسٹی کے پڑھے ایک نوجوان نے اپنی تعلیم کا غلط استعمال کرتے ہوئے قبیلے کی سرداری پر قبضہ کر لیا۔ چند ماہ بعد جب موسم خزاں آیا تو قبیلے والے اس کے پاس آئے اور پوچھنے لگے کہ سردار اگلی سردیاں عام سردیوں جیسی ہوں گی یا زیادہ برف پڑے گی تا کہ اس کے مطابق لکڑیاں جمع کی جا سکیں؟ اب اس نوجوان کے پاس قدیم بزرگوں جیسی دانائی اور سمجھ بوجھ تو تھی نہیں جو وہ زمین او ر آسمان کو دیکھ کر بتا دیتا کہ موسم سرما کیسا ہو گا۔ وہ تو شہر کی یونیورسٹی سے پڑھ لکھ کر آیا تھا، اس نے سوچا کہ اگر کہہ دیا کہ عام سی سردی ہو گی اور زیادہ برف پڑ گئی تو بے عزتی الگ ہو گی اور قبیلہ بھی مارا جائے گا۔ اس لیے اس نے ازراہ احتیاط کہہ دیا کہ کچھ سخت سردی ہو گی، لکڑیاں جمع کر لو۔ قبیلے کے جوان لکڑیاں جمع کرنے میں لگ گئے۔ ہفتہ بھر نوجوان سردار بے چین رہا کیونکہ قبیلے کی زندگی کا دارومدار اس کے فیصلے پر تھا اور وہ ایک تکا لگا کر یہ فیصلہ دے چکا تھا لیکن اس فیصلے میں کتنی صداقت ہے یہ وہ اچھی طرح سے جانتا تھا اس لیے اس کی پریشانی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھنے لگی۔اس کی مروجہ تعلیم کی انتہا یہ ٹھہری کہ آخر اس نے علاقے میں موجود محکمہ موسمیات والوں کو ایک گمنام کال کی اور پوچھا کہ اس سال موسم سرما کیسا رہے گا؟ انہوں نے جواب دیا کہ معمول سے زیادہ سردی پڑے گی۔ نوجوان سردار نے قبیلے والوں کو جمع کیا اور بتایا کہ اس سال موسم سرما معمول سے کچھ زیادہ سرد ہو گا، اس لیے زیادہ لکڑیاں جمع کر لو۔ قبیلے کے نوجوان ہر طرف پھیل گئے اور قبیلے میں لکڑیوں کے ڈھیر نظر آنے لگے۔ چند دن کے بعد نوجوان سردار نے ایک بار پھر محکمہ موسمیات والوں کو فون کر کے پوچھا کہ اب آپ کیا کہتے ہیں کہ اس سال کتنی سردی پڑے گی؟ انہوں نے بتایا کہ ابھی تک ہم یہی بتا سکتے ہیں کہ معمول سے کافی زیادہ سردی پڑنے کا امکان ہے، ایسی سردی جو شدت بھی اختیار کر سکتی ہے۔ نوجوان سردار نے قبیلے والوں کو شدید سردی کی نوید سنائی اور مزید لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دے دیا جس کے بعد قبیلے کے نوجوانوں نے ارد گرد کے علاقوں سے ملنے والا ہر لکڑی کا ٹکڑا قبیلے میں جمع کر دیا۔ اپنی شہری زندگی اور جدید تعلیم کے ہاتھوں مجبور نوجوان سردار نے کچھ دن گزرنے کے بعد ایک بار پھر جب محکمہ موسمیات سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس سال برف باری سے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ ٹوٹ جائیں گے اور ایسی سردی پڑے گی کہ کسی نے شائد ہی دیکھی ہو۔ نوجوان سردار نے حیرت اور بے بسی سے پوچھا کہ آپ کس بنیاد پر یہ کہہ رہے ہیں؟ کیونکہ اپاچی قبیلے کے لوگ پاگلوں کی طرح لکڑیاں جمع کر رہے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ان کے سردار کی پیش گوئی کبھی غلط نہیں ہوتی، اس سال موسم سرما انتہائی سرد ہو گا،ماہر موسمیات نے اپنی ماہرانہ رائے دی تو نوجوان سردار کو اپنے پیروں تلے سے زمین نکلتی محسوس ہوئی۔
پاکستانی سیاست اور میڈیا میں بھی کچھ ایسا ہی تعلق ہے کہ دونوں طرف کے ماہرین ایک دوسرے پر قناعت کیے ہوئے ہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سیاست دانوں یعنی اپوزیشن نے اپنی توپوں کا رخ حکومت کی طرف کیا ہو تو میڈیا خاموش رہا ہویاں پھر جب میڈیا اپنی حکومت دشمن پالیسی پر کاربند ہوتے ہوئے ہر پروگرام میں حکومت کی ناکامی کا ایک اور ثبوت جیسا شور مچا رہا ہو تو سیاست دان چپ شاہ کے روزے سے ہوں۔ جیسے ہی چار سیاست دان آپس میں ملاقات کرتے ہیں ، میڈیا کسی بھی حکومت مخالف بو کو سونگھنے میں لگ جاتا ہے اور ذرا سی رائی پر صرف پہاڑ نہیں بلکہ پہاڑی سلسلے کھڑے کر دیتا ہے۔ میڈیا کے اس واویلے کو سیاست دان زبان خلق سے نقارہ خدا سمجھتے ہوئے اکٹھے ہونے لگ جاتے ہیں اور سیاست دانوں کے اس اجتماع سے میڈیا یہ خبر بنانے لگ جاتا ہے کہ ابھی حکومت مخالف اتحاد کی تشکیل اپنے عروج پر ہے جس کی وجہ سے وہ بھی اپنا شور آسمان پر پہنچانے میں لگ جاتا ہے۔ کمال خوبصورت تعلق ہے کہ میڈیا کے بلند ہوتے شور سے سیاست دان قوت لیتے ہیں اور جمع ہونا شروع ہوتے ہیں جبکہ سیاست دانوں کی جتنی زیادہ تعداد کسی ایک تقریب میں جمع ہو ، میڈیا اپنا شور اس قدر بلند کرنے میں لگ جاتا ہے اور دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ وقت کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں اور زبان خلق سے نقارہ خدا کو پہچان رہے ہیں جبکہ حقیقت صرف اتنی ہوتی ہے کہ دونوں ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ سیاست دان نئی اور اپنی متوقع حکومت کے لیے شیروانیاں تک سلا لیتے ہیں، وزارتیں تک بانٹ لیتے ہیں اور اب انتظار ہوتا ہے کہ کب میڈیا کے اٹھائے ہوئے طوفان کا عوامی نتیجہ سامنے آتا ہے یا کوئی مقتدر ادارہ حکومت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکتا ہے یا پھر کوئی امپائر اپنی انگلی اٹھاتا ہے لیکن اکثر یہ انتظار صرف انتظار ہی رہ جاتا ہے دوسری طرف میڈیا بھی اب انتظا رمیں ہوتا ہے کہ شیروانیاں سل گئی ہیں، وزارتیں بانٹ لی گئی ہیں، ملاقاتیں اور منصوبے اپنے آخری مراحل طے کر چکے ہیں تو اب حکومت صبح گرتی ہے کہ شام کو لیکن ایسی کوئی صبح آتی ہے نہ شام آتی ہے اور پھر دونوں فریق ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ یہ ناکامی کس لیے؟ سیاست دان کہتے ہیںکہ میڈیا والو! ہم تو تمہارے شور کی وجہ سے سمجھے تھے کہ عوامی طوفان اب کناروں سے باہر نکل آیا ہے تب میڈیا والے جواب دیتے ہیں کہ ہم تو آپ کی ملاقاتوں کو کسی عوامی طوفان کاپیش خیمہ سمجھے ہوئے تھے اور پھر دونوں ایک دوسرے کا منہ دیکھتے ہوئے اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں۔
سوال یہ نہیں کہ دونوں میں سے کس کے پاس زیادہ جھوٹی اور غیر مصدقہ معلومات ہوتی ہیںبلکہ سوال صرف یہ ہے کہ اپنے اپنے بیانات میں دونوں ارسطو بنے ہوتے ہیں لیکن ان کے علم کی بنیاد کس قدر کھوکھلی ہوتی ہے اس سے عوام کب با خبر ہوں گے؟ سوال تو یہ ہے کہ برسوں سے یہ کھیل جاری ہے لیکن عوام پھر بھی لکڑیاں جمع کرنے میں لگے ہوتے ہیں آخر وہ دونوں سے ان کے دعووں کا ثبوت کیوں نہیں مانگتے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ آخر عوام اپنی حکومت سے مطمئن کیوں نہیں ہوتے تاکہ سیاست کے ان اپاچی قبیلوں اور میڈیا کے موسمیاتی ماہروں کے کھیل، شور اور سازشوں سے نجات ملے اور کچھ دن سکون کے گزارے جائیں۔ خود سے سوال کیجئے کہ آپ اس کھیل سے کب باہر نکلنا چاہتے ہیں اور کب اپوزیشن سیاست اور میڈیا کے باخبر ترین جھوٹے پروگراموں کے پر چار حرف بھیجیں گے؟ (خرم شہزاد)
(خرم شہزاد کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر۔۔)