تحریر: شعیب واجد۔۔
وہی ہوا جس کا ڈر تھا..میڈیا کا ایک خاص طبقہ سانحہ ساہیوال کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے لگا ہے..اور اس اشو پر جس سوچ سے فوکس کیا جارہا ہے.. وہ ماضی کی خطرناک میڈیا اسٹریٹجی کی تصویر پیش کررہی ہے۔سانحہ ساہیوال کے ذمہ داروں کو مثالی سزا دینے پر کوئی دو رائے نہیں ہیں.اور نہ ہو سکتی ہیں..حتی کہ حکومت بھی اس سے پیچھے ہٹنے کی ہمت نہیں کرسکتی۔۔ایسے میں اگر کوئی میڈیا ہاؤس کسی ایشو کو موجودہ حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے استعمال کرتا ہے تو اس کا فائر بیک لازمی ہوگا..بلکہ اگر عقل کے ناخن لئے جائیں تو پچھلی میڈیا پالیسیاں,جن پر فائر بیک اب تک جاری ہے ایسے میں نئی مہم جوئی کیا رنگ دکھائے گی ؟ وہ بھی ایسے ماحول میں ,جب میڈیا اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے..اور نیوز چینلز بند ہونے کی کگار تک پہنچ گئے ہیں.جبکہ کئی اخبارات اور چینلز بند بھی ہوچکے ہیں..
میڈیا کے بحران اور ورکرز کی حالت زار پر موجودہ حکومت کسی ہمدردی کا مظاہرہ نہیں کررہی..شاید یہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ورکرز کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور انہیں ملازمتوں سے محروم کرنا بھی میڈیا ہاؤسز کی بلیک میلنگ کا حصہ ہے..ایسی صورتحال میں چینلز کی جانب سے کسی نئے سیاسی ایجنڈے کا حصہ بننا خود میڈیا انڈسٹری اور ورکرز کیلئے معاشی موت ثابت ہوسکتا ہے۔۔سانحہ ساہیوال , اس عظیم اور جاری سانحے کا نام ہے جسے پاکستان کا نظام کہتے ہیں.. اس نظام میں روز سانحات رونما ہوتے ہیں اور ٹی وی اور اخبارات کی ایک سطری خبر میں گم ہوجاتے ہیں.جبکہ کسی خاص معاملے کو ہی علامتی طور پر میڈیا میں بڑی جگہ مل پاتی ہے۔
ایسے میں عرض بس یہی کرنا ہے کہ میڈیا کے مائی باپوں کو نئی مہم جوئیوں سے گریز کرنا چاہئیے, خصوصاً میڈیا ورکرز کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے ان پر رحم کیا جائے۔ رہی بات کسی سانحے کے ذمہ داروں کو نشان عبرت بنانے کی..تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں اور نہ ہونی چاہئیں..(شعیب واجد)۔۔