media islah kakre kon

میڈیا! اصلاح کرے کون؟

نوید مسعود ہاشمی تحریر:

رمضان المبارک کا مہینہ سایہ فگن ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم میڈیا والے بھی ہوش کے ناخن لیں اور کچھ اپنے بارے میں بھی سوچیں ،یہ اینکروں، اینکرنیوں، کالم نگاروں، تجزیہ نگاروں کی دنیا بھی عجب ہے، دوسروں کے گریبانوں سے کھیلتے ہیں، دوسروں پر دھول، مٹی ڈالتے ہیں، یہ مخالف پہ تنقید کے تیر برساتے ہیں، دوسروں کی اصلاح چاہتے ہیں، مگر اپنی اصلاح کی فکر ہوتی ہے اور نہ اپنے بارے میں کچھ  خبر، حالانکہ قبر کے اندر ہر کسی کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوتا ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کالم نگاروں اور لکھاریوں کی اکثریت ، اللہ اور اس کے رسولۖ کے راستے کی طرف بلانے اور  دین اسلام کی دعوت دینے کی بجائے، کمیونزم، کیپٹلزم، سوشلزم  ،الحاد پرستی اور مغربی جمہوریت کی طرف بلاتے  نہیں تھکتے,کالم نگار، اینکرز اور اینکرنیاں اپنی طرف سے گھڑ، گھڑ کر نئے سے نیا سوال اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں،لیکن 76برسوں سے پاکستانی سرزمین کو نظام اسلام کے نفاذ کی برکتوں سے زبردستی محروم کیوں رکھا جارہا ہے؟  یہ جینوئن سوال اٹھانے کی کوشش کوئی بھی نہیں کرتا، میڈیا نے کسی کو گندہ کرنا ہو، کسی ”برائی ”کو  ”اچھائی”قرار دلوانا ہو، تو پوری پوری کمپیئن  لانچ کی جاتی ہے، لیکن پاکستان میں  اسلامی نظام کے نفاذ کے حق میں کمپیئن چلانا تو درکنار میڈیا خبر دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتا۔

میڈیا میں بھی ہر کسی نے اپنا اپنا ہیرو بنا رکھا ہے، کوئی فوج پر تنقید کرنے والے کو ٹارزن سمجھتا ہے، کوئی دین اسلام کے احکامات کو مسترد کرنے والے کو ہیرو سمجھتا ہے، کوئی جمہوریت کا ”ماما”بننے کو اعزاز سمجھتا ہے، کوئی سیاست دانوں کے دم  چھلہ بننے والے کو ہیرو سمجھتا ہے، غرض جتنے منہ اتنی ہی باتیں، جتنے ”صحافی”اتنے ہی ”سینئر”ہر کوئی ”سینئر”کسی کو ”جونیئر”صحافی، جونیئر کالم نگار کہہ دیا جائے تو وہ کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے، ڈھیروں  ”سینئرز”لکھاریوں کی  خدمت میں حضرت جنید بغدادی کی وفات کا واقعہ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں، ابو محمد حریری کہتے ہیں کہ حضرت جنید بغدادی(متوفی 298ھ) کی وفات کے وقت میں ان کے پاس موجود تھا، یہ جمعہ کا دن تھا اور وہ قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے، میں نے کہا ”ابوالقاسم”کچھ اپنی جان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیجئے، حضرت جنید بغدادی نے فرمایا ”ابو محمد!کیا اس وقت آپ کو کوئی  ایسا شخص نظر آتا ہے جو اس عبادت کامجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو، وہ دیکھو میرا نامہ اعمال لپیٹا جارہا ہے” وفات کے وقت حضرت جنید بغدادی نے وصیت فرمائی کہ میری طرف جتنی علم کی باتیں منسوب ہیں اور لوگوں نے انہیں لکھ لیا ہے وہ سب دفن کر دی جائیں، لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو  جواب دیا کہ ”جب لوگوں کے پاس آنحضرتۖ کا علم (حدیث)موجود ہے تومیری خواہش یہ ہے کہ اللہ سے میری ملاقات اس حالت میں ہو کہ میں نے اپنی طرف منسوب کوئی چیز نہ چھوڑی ہو، وفات کے بعد حضرت جعفر  خلدی نے اپنے خواب میں دیکھا اور پوچھا !” اللہ نے آپ کے ساتھ کیسا معاملہ کیا؟ حضرت جنید نے جواب دیا ”وہ اشارے ختم ہوئے ، وہ عبارتیں غائب  ہوگئیں، وہ علوم فنا ہوگئے، وہ نقوش مٹ گئے اور ہمیں نفع  پہنچایا تو چند رکعتوں نے جو ہم سحری کے وقت پڑھ لیا کرتے تھے۔” یہ تحریریں، یہ تجزئیے، تبصرے، اپنی جگہ پر، مگر زندگی بڑی سرعت کے ساتھ گزرتی چلی جارہی ہے، قبریں بالکل سامنے آن کھڑی ہوئی ہیں۔ 76سال بعد بھی ”پاکستان”دن بدن تنزلی کی طرف جارہا ہے، تم نے رسواکن ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ساتھ مل کر لال مسجد  جامعہ حفصہ کی پاکباز بیٹیوں کو یہ کہہ کر فاسفورس بموں سے مروایا تھاکہ اسلام آباد کے قلب میں ”برقعہ برگیڈ”پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ ہے، شیخ رشیدوں نے یہ کہہ کر امریکہ کو افغان طالبان کے خلاف پاکستان میں اڈے دئیے تھے کہ اگر ہم نے امریکہ کی بات نہ مانی تو امریکہ ہمارا تورا بورا بنا دے گا، امریکہ کو اڈے  دے کر بھی دیکھ لیا، امریکہ سے ڈالر لے کر بھی دیکھ لیا، لیکن پاکستان نے ترقی کیا خاک کرنا تھی، اب تو کہا جارہا ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔

لبرل، سیکولر سیاست دانوں، الحاد پرستوں اور میڈیا کے پردھانوں کو امریکہ کی غلامی اور امریکی ڈالروں پر بڑا ناز تھا،  مگر امریکہ اور امریکی ڈالر تو گئے کھو کھاتے میں، پاکستان کے عوام آج مہنگائی کی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان جس بری طرح پس رہے ہیں، وہ سب کے سامنے ہے، پٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں کو دیکھ کر عوام کو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے عمران خان سے لے کر شہباز شریف تک کو عوام سے کوئی خاص دشمنی ہو۔ آئی ایم ایف کے یہودیوں کی غلامی نے پاکستان کے عوام کا خون تک نچوڑ ڈالا ہے۔ ”میڈیا”مختلف سیاست دانوں اور حکمرانوں کی حمایت اور مخالفت کی بجائے اگر اس بدبودار نظام کو جڑ سے اکھیڑ کر نفاذ نظام اسلام کی بات کرتا تو یہ مفید بات ہوتی۔ 76سال بعد بھی اسٹیبلشمنٹ، سیاست دان اور حکمران اس ملک کے عوام کو ایک قوم نہیں بناسکے،پاکستان کی سالمیت اور سلامتی پر،خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں، آئیے کچھ کام خالص  اللہ کے لئے بھی کرلیتے ہیں۔

 ہمیں پاکستان کو بچانا ہے، اپنی آخرت کو بھی سنوارنا ہے، جب حکمران، سیاست دان اور ادارے آپس میں مل نہیں بیٹھیں گے توکارکنوں کے دنوں میں مزید نفرتیں جنم لیں گی، ملکی سیاست کا منظر نامہ دیکھ کر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نفرتوں کو عام کرنے کے لئے پورے پورے گروہ مصروف ہوں؟ انسانوں کا مذاق اڑایا جارہا ہے، میں بار، بار یہ بات لکھ رہا ہوں کہ یہ بوسیدہ نظام سوائے نفرتوں کوعام کرنے کے اور کوئی کام نہیں کر رہا، اگر کالم  نگاروں، لکھاریوں،دانشوروں کو اگر فرصت ملے تو انہیں  چاہیے کہ وہ ”نظام اسلام”کا بھی کشادہ دلی سے مطالعہ کریں، ان شا اللہ اس کا انہیں ضرور فائدہ ہوگا۔(نوید مسعود ہاشمی)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں