میڈیا انڈسٹری، انسان اور پاکستانی

تحریر: اعجاز حسین

2018 کے الیکشن کے بعد سے ایک نہ رکنے والے واقعات کا سلسلہ ہے جس نے پورے پاکستان کو اُلٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے، کچھ لوگوں کی نظر میں یہ سب کچھ ہوگا اگر تبدیلی چاہیئے، جبکہ کچھ کے خیال میں یہ سب ناتجربہ کاری کا نتیجہ ہے، اور حکومت کو معاملات کی سرے سے کوئی سمجھ ہی نہیں کہ حکومت چلانی کیسے ہے، کیونکہ کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی کا شدید فقدان نظر آتا ہے۔

کچھ ایسا ہی انسانی مسئلہ اسوقت میڈیاء انڈسٹری کو درپیش ہے، جبکہ حقائق کچھ اور ہیں معاملات مشرف دور میں بھی خراب ہوئے چینلززبردستی بند بھی کیئے گئے، انکی ٹرانسمیشن کو روکا بھی گیا، زرداری دور میں بھی یہ سلسلہ چلتا رہا، تقریباَ ہر دور میں کچھ نہ کچھ مسائیل رہے ہیں، جس میں ٹی وی چینلز نے کافی نقصان اُٹھایا، اُن پر کچھ خاص لوگوں کو فارغ کرنے کے لیئے دباؤ بھی ڈالا گیا، لیکن پھر بھی حالات اس نہج پر نہیں پہنچے تھے جہاں آج ہیں، سینکڑوں لوگ جنہوں نے اپنی زندگی کے 5 سے 20 سال میڈیاء انڈسٹری کو دیئے، آج خالی ہاتھ سڑک پر کھڑے ہیں، بے شمار ایسے ہیں کہ جنکی اب عمر بھی گزر چکی کہ کہیں اور نوکری کے لیئے اپلائی کریں، جبکہ کم تنخواہ اور جو اٗنھیں کبھی وقت پر مل بھی نہ سکی نے اٗنکو کبھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہونے دیا، آج لاچارگی کی تصویر بنے حسرت سے حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

حکومت سے جب میڈیاء انڈسٹری کے واجبات کے حوالے سے سوال کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں، ابھی ہمارے پاس واجبات ادا کرنے کے لئے پیسے نہیں ہیں، جب اشتہارات دینے کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ حکومت ابھی بچت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، اس لیئے اشتہار نہیں دے سکتی، جب میڈیا کی بدحالی کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ آپ کا بزنس ماڈل ٹھیک نہیں ہے، میڈیا ورکرز کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ٹی وی ختم ہونے والا ہے، لوگ میڈیاسے متعلق ڈگریاں نہ لیں۔ غرض بے حسی کا ایک عفریت ہے جس نے ہر کسی کو خوف زدہ کر رکھا ہے، میڈیا ہاؤسز میں کام کرنے والے تمام کارکنان سہمے بیٹھے ہیں کہ پتہ نہیں کب اٗن کا نمبر آجائے یا اٗن کی تنخواہ کم کر دی جائے، جبکہ اکثر جگہوں پر کئی سال سے تنخواہوں میں اضافہ بھی نہیں کیا گیا ، مرے پر سو درے یہ کہ حکومت نے میڈیا ہاؤسز کو حکومتی کمرشلز کے نئے ریٹس پکڑا دیئے ہیں جو ماضی کے مقابلے میں کئی گنا کم ہیں۔ جب بھی مہنگائی بڑھتی ہے تو مارکیٹ میں پراڈکٹ دو طرح سے رکھی جاتی ہے، یا تو اسکی قیمت میں اضافہ کیا جاتا ہے اور مقدار وہی رکھی جاتی ہے یا اٗسکی مقدار گھٹا کر قیمت پرانی رکھی جاتی ہے، تو میڈیاہاؤسز بھی یہ ہی کر رہے ہیں، وہ کارکنان کی تعداد کم کر رہے ہیں تاکہ پرانی قیمت پر ہی پراڈکٹ کو بیچا جا سکے، میڈیا ہاؤسز کی مجبوری اپنی جگہ لیکن حکومت کی بے حسی سمجھ سے باہر ہے، بظاہر اسکی واحد وجہ یہ ہی نظر آ رہی ہے کہ وہ میڈیا ہاؤسز کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں، اٗنہیں نکیل ڈالنا چاہتے ہیں، اُنہیں سزا دینا چاہتے ہیں، کچھ اینکر پرسنز کی برطرفی اور کئی طرح کی خبروں پر لگائی جانے والی پابندیاں اس بات کا ثبوت ہیں۔ چاہے کتنے ہی لوگوں کی نوکری چلی جائے، کتنے ہی دل کے دورے سے مارے جائیں یا سڑک پر آجائیں۔ حکومت کو پرواہ نہیں کیونکہ وزیر اطلاعات اکثر ٹاک شوز میں انتہائی لاپرواہی سے کندھے اٗچکا کر کہ دیتے ہیں، ” آپکا بزنس ماڈل ٹھیک نہیں ہے ” یا ” ہاں تو بند کردیں بزنس ” وغیرہ وغیرہ۔ٹھیک ہے جناب بند کر دیتے ہیں بزنس، لیکن کیا آپ جواب دیں گے کہ پاکستان اسٹیل مل، پی آئی اے، ریلوے اور پاور سیکٹر کے بزنس ماڈل بھی تو ٹھیک نہیں ہیں، اُنھیں آپ کب بند کر رہے ہیں؟ آپ کیوں ہر سال اٗنکو اربوں روپے کی سبسڈی دیتے ہیں؟ میڈیا انڈسٹری ٹی وی، ریڈیو، اخبار اور رسائیل و جرائد پر مشتمل ہے جن میں لاکھوں لوگ کام کرتے ہیں، اگر پی آئی اے کی بات کی جائے تو وہاں 14000 ملازمین کام کرتے ہیں اور وہ اربوں روپے کی سبسڈی کئی سال سے حاصل کر رہے ہیں، پاکستان اسٹیل میں 12500 ملازمین کام کرتے ہیں، اربوں روپے کی سبسڈی اٗنھیں بھی دی جارہی ہے، 12 نومبر 2018 کو وزیر داخلہ صاحب نے 53 ارب روپے پی آئی اے اور بجلی کمپنیوں کی سبسڈی کے لیئے منظور کیئے ہیں، ریلوے کو 30 ارب روپے، 13 ارب روپے فرٹیلائیزر کمپنیوں کو، جبکہ زراعت کو دی جانے والی اربوں روپے کی سبسڈی اسکے علاوہ ہے، حکومت ان فیل بزنس ماڈلز کو سبسڈی کیوں دے رہی ہے؟ حکومت ان سب کو بند کیوں نہیں کر رہی؟

منافع صرف یہ نہیں ہے کہ آپ پیسہ لگائیں اور زیادہ پیسہ کمائیں، حکومت کچھ اداروں میں پیسہ لگاتی ہے اور سروس لیتی ہے یا مہیاء کرتی ہے اُسکے مقابلے میں ٹیکس لیا جاتا ہے، جیسے پولیس کا محکمہ، کیا پولیس کا محکمہ عوام کو ٹھیک سروس دے رہا ہے؟ کیا سرکاری اسپتال عوام کو ٹھیک سروس دے رہے ہیں؟ تو کیا یہ سب بزنس ماڈل غلط ہیں؟ کیا ان سب کو بند کر دینا چاہیئے؟کیا میڈیا آپ سے سبسڈی مانگ رہا ہے؟ بالکل نہیں، میڈیا آپکو پوری سروس دیتا ہے، وقت بے وقت آپ کی پریس کانفرسز اور آپ کی آنیاں جانیاں فری میں دکھاتا ہے، آپ کے جلسے کو 2،2 گھنٹے کی کوریج دیتا ہے، ٹاک شوز میں حکومت اور اپوزیشن کی فری میں نمائش کی جاتی ہے، آپ کا بیانہ آپ کے ہی منہ سے دنیا کو بتایا جاتا ہے، الیکشن کیمپین میں تمام پارٹیوں کو برابر کی فری کوریج دینے کی کوشش کی جاتی ہے، اور حکومت کو اربوں روپے کا انکم ٹیکس بھی ادا کیا جاتا ہے، اس سب کے بدلے میڈیا کو چاہیئے کیا؟ صرف اشتہار اور اگر وزارت اطلاعات میڈیا ہاؤسز اور ورکرز کی بہبود کے لیئے کچھ کر سکے تو یہ بونس ہے۔ لیکن کیا کیا جا رہا ہے، پوری سروس لے کر اشتہار کا پیسہ بھی حکومت اپنی مرضی سے دینا چاہتی ہے، اور بہبود کے لیئے کیا کر رہی ہے؟ یہ تو شاید سوال ہی رہے گا۔ بلکہ اب سوال صرف یہ ہے کہ اگر حکومت پی آئی اے، پاور سیکٹر، ریلوے، زراعت، یوریاء اور اس جیسے کئی شعبوں کے لیئے ماں کا کردار ادا کر رہی ہے تو میڈیا انڈسٹری کے لیئے اس ماں کی مامتا کیوں مر جاتی ہے، کیا میڈیا ہاؤسز میں پاکستانی کام نہیں کرتے یا حکومت انہیں انسان بھی سمجھنے کی روادار نہیں ہے؟

کیا اس طرح ایک آزاد میڈیاء پرورش پا سکتا ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مارشل لائی دور کے ان واقعات سے آپ میڈیاء کو کنڑول کر سکتے ہیں، اگر آپ خوش فہمی میں ہیں کہ ٹی وی ختم ہو جائے گا تو یہ تو یقیناَ ہو سکتا ہے کہ ابلاغ کا زریعہ بدل جائے لیکن یہ نا ممکن ہے کہ خبر ختم ہوجائے، یاد رکھئے ابلاغ کے زرائع کم نہیں بڑھ رہے ہیں، پہلے قاصد ہوا کرتا تھا، پھر اخبار آیا اور اب زرائع بے شمار ہیں۔ یہ صورتحال حکومت کے لئے تشویش کا باعث ہونی چاہیئے، نہ کہ خوشی کا۔(اعجازحسین)۔۔

How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں